جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل نے امریکی فیصلوں‌کو کیسے القدس کو یہودیانے کے لیے استعمال کیا؟

جمعہ 21-دسمبر-2018

فلسطین پر صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے اور توسیع پسندی میں امریکا کو اسرائیل کا اول درجے کا سرپرست قرار دیا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصےبالخصوص امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف کئی فیصلے اور انتقامی اقدامات کیے۔ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیا۔ پی ایل او کے مراکز بند کیے اور فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کی۔ ان تمام اقدامات جو بین الاقوامی قوانین کی رو سے جرائم تصور کیا جاتا ہے۔ سنہ 2018ء کے دوران ہونے والے اعلانات اور فیصلوں‌نے اسرائیل کو فلسطین میں‌یہودی آباد کاری کے لیے ایک نیا حوصلہ اور ہمت فراہم کی۔ اسرائیل نے ان اقدامات اورفیصلوں کو فلسطین میں یہودی آباد کاری بالخصوص القدس کو یہویانے کے لیے ایک سنہری موقع کے طورپر پراستعمال کیا۔

ٹرمپ کے اعلان القدس اور شہر میں امریکی سفارت خانے کے افتتاح کے بعد اسرائیل کو  القدس کو یہویانے کے لیے کئی دیگر اقدامات کیے گئے۔ القدس کے فلسطینی اسپتالوں کی امداد بندکی گئی اور فلسطینی پناہ گزینوں‌کی مالی امداد روکی گئی۔ امریکا کے فیصلوں سے فایدہ اٹھا کر اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے دن رات کام شروع کردیا ہے۔
ٹرمپ کے اعلان القدس سے یہ عیاں ہوگیا کہ امریکا صہیونی ریاست کے لیے’لا محدود’ حمایت کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔ وہ فساد در فساد پھیلاتےہوئے القدس میں صہیونی قبضے کے جنون کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔

رواں سال کے دوران امریکی فیصلوں کی آڑ میں صہیونی ریاست نے مقبوضہ بیت المقدس میں‌فلسطینیوں کے 145 مکانات مسمار کیے جس کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں افراد بے گھرہوگئے۔
اسرائیل کے ایک غیر سرکاری انسانی حقوق گروپ ‘عیرعامیم’ کے مطابق 2018ء کے دوران اسرائیل نے بیت المقدس میں یہودیوں کے لیے 5820 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی۔ رواں سال کے دوران القدس میں یہودی آباد کاری کے لیے 603 ٹینڈر شائع کیے گئے جب کہ یہودی شرپسندوں اور ان کی تنظیموں نے فلسطینیوں‌ کے 6 گھروں پر قبضہ کیا۔

مسجد اقصیٰ پردھاوے
سنہ 2018ء کے دوران مجموعی طورپر 28 ہزار یہودی آباد کاروں‌نے قبلہ اول پردھاوے بولے۔ گذشتہ برس یہ تعداد 26 ہزار تھی۔ رواں سال قبلہ اول کی بے حرمتی کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ امریکا کے فلسطینیوں بالخصوص القدس کے حوالے سے ہونے والے فیصلے اور اقدامات ہیں۔

اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے جاری کردہ تفصیلات میں‌ تسلیم کیا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے دھاووں میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ رواں سال دو بار مسجد اقصیٰ کو فلسطینی مسلمانوں کے لیے بند کی گئی۔ فلسطینی محکمہ اوقاف نے صہیونی ریاست کی اس بندش کو مسترد کردیا اور اسے اجتماعی مذہبی سزا دینے کے مترادف قرار دیا۔

کریک ڈاون اورگرفتاریوں میں اضافہ
مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے دھاووں کے ساتھ ساتھ قابض صہیونی فوج اور پولیس کے ہاتھوں فلسطینیوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی عروج پر رہا۔ رواں سال فلسطینیوں کی پکڑ دھکڑ کے واقعات میں‌بھی اضافہ دیکھا گیا۔

القدس میں فلسطینی اسیران کے اہل خانہ پر مشتمل کمیٹی کے چیئرمین امجد ابو عصب نے کہا کہ اسرائیلی فوج نے رواں سال کے دوران اب تک 1600 فلسطینیوں کو القدس سے حراست میں لیا۔ ان میں ایک چوتھائی بچے تھے جن میں سے 30 کی عمریں 14 سال سے بھی کم تھیں۔ اس کے علاوہ القدس سے 55 خواتین کو حراست میں‌ لیا گیا۔

امجد ابو عصب کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی گرفتاریوں کے ساتھ ان پر جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد میں بھی اضافہ ہوا۔ درجنوں فلسطینوں کو القدس اور مسجد اقصیٰ سے بے دخل کردیا گیا۔ رواں سال کے دوران القدس میں اسرائیلی فوج نے 4 فلسطینیوں کو شہید کیا۔

 

مختصر لنک:

کاپی