فلسطینی اتھارٹی اپوزیشن جماعتوں کی آواز دبانے میں پہلے ہی سے مشہور ہے۔ صہیونی ریاست کے نقش قدم پرچلنے والی فلسطینی اتھارٹی طاقت کے ذریعے عوام کو دبانے، اپوزیشن کی آواز خاموش کرنے اور عوام الناس سے ان کے آزادی اظہار کے حق کو سلب کرنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔
اس کا تازہ تماشاہ دیکھنا ہوتو دو روز قبل فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت نام نہاد سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں غرب اردن میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے یوم تاسیس کے حوالے سے نکالی جانے والی ریلیوں پر طاقت کے وحشیانہ استعمال کو دیکھ لیا جائے۔
ایک طرف فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی محافظوں اور اسرائیلی فوج نے برابر طاقت کا استعمال کیا اور دوسری طرف عوام نے بھی اپنے غم وغصے کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔
غرب اردن کے شمالی شہر نابلس اور جنوبی شہر الخلیل میں حماس کے یوم تاسیس کی ریلیوں پر جس بے دردی سے حملہ کیا اس نے فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد جمہوری نقاب کا پردہ چاک کردیا۔
فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی حکام نے حماس کے کارکنوں،رہ نمائوں، خواتین اور بوڑھوں کو نہایت بے رحمی کے ساتھ سڑکوں پر گھیسٹا اور یہ ثابت کیا کہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کے ماتحت سیکیورٹی ادارے کسی قانون، آدرش یا اصول کے روادار نہیں۔
رام اللہ میں اقتصادی اور سماجی حقوق کی رصد گاہ کے ڈائریکٹر فراس جابرنے کہا کہ ایک طرف فلسطینی قوم یورپی ملکوں اور عالمی سطح پر اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز بلند کرتی ہے مگر دوسری طرف وہی کچھ فلسطینی اتھارٹی کے جلاد کررہےہیں۔ فلسطینی پراتھارٹی دوہرے معیار پر چل رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے خود کو پولیس اسٹیٹ ثابت کیا ہے اور ہم دنیا کے سامنے اسرائیل کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے بھی ہچکچاتے ہیں۔
جمہوری محاذ کے رکن عمر عسا نے کہا کہ غرب اردن کے شہروں میں حماس کے یوم تاسیس کی تقریبات اور ریلیوں پر فلسطینی اتھارٹی کے پرتشدد ہتھکنڈوں کا استعمال قومی جرم ہے۔
سماجی کارکن محمود جودہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی قوم کے خلاف رام اللہ اتھارٹی کے طاقت کا استعمال حقائق چھپانے کی کوشش ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی اتھارٹی حماس کی عوامی مقبولیت سے خوف زدہ ہے اور وہ طاقت کے ذریعے عوام کو حماس سے دور کرنا چاہتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکن فارس ابو الحسن کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کا ظالمانہ طرز عمل حیران کن اور ناقابل یقین ہے۔ اس طرح کی کارروائیاں تو فوٹو شوٹنگ کے لیے بھی نہیں کی جاتیں۔