فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں ان دنوں فلسطینی اتھارٹی کے بنکوں کی جانب سے شہریوں کو قرضوں پر قرض دینے کی خبریں زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ کیا فلسطینی شہریوں کو قرض میں ڈبونے سے شہری واقعی مستفید ہو رہے ہیں یا اس کا فائدہ کسی اور طاقت کو پہنچ رہا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب عام لوگوں کے پاس نہیں کیونکہ قرض خواہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اردن کے شہروں میں مقامی فلسطینیوں کو قرضوں کی ادائی کا سلسلہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ مقامی سطح پر پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔
ایک مقامی شہری ناصر ابو شملہ نے مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مغربی کنارے کے فلسطینی خاندانوں کو ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت قرض میں ڈبویا جا رہا ہے۔ فلسطینیوں کو قرضوں کی اتنی بڑی رقم دی جاتی ہے جو ان کے لیے واپس کرنا ممکن نہیں۔ ان میں سے بیشتر صارفین کے مفادات کے لیے ادا کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کو نہ تو زرعی شعبے میں سرمایہ کاری کی اجازت ہےاور نہ ہی صنعتی شعبوں میں ان کو ایسا کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
ابو شملہ نے بتایا کہ فلسطینی بنکوں نے ہمیں قرضوں میں ڈبو کر رکھ دیا ہے۔ اب ہم ان قرضوں کا مارک اپ اور منافع دینے کے قابل بھی نہیں۔ سابق وزیراعظم سلام فیاض نے فلسطینیوں کو قرض دینے کی پالیسی منظور کی تھی۔ موجودہ حکومت بھی اس پر چل رہی ہے۔ بہت سے فلسطینی ایسے ہی جو قرضوں کی عدم ادائی کے باعث اب جیلوں میں ڈالے جا رہےہیں اور بہت سوں کو جیلوں میںڈالے جانے کا خدشہ ہے۔
فلسطینی مانٹیری اتھارٹی کے مطابق سنہ 2008ء سے 2011ء کے دوران فلسطینیوں کو 70 ملین ڈالر قرض دیا گیا۔ سنہ 2013ء تک یہ شرح 80 کروڑ 85 لاکھ ڈالر تک جا پہنچی۔ 2017ء میں یہ تناسب ایک ارب 40 کروڑ اور 2019ء کی پہلی چوتھائی میں اس میں مزید 26 فی صد اضافہ ہوا ہے۔
فلسطینی اقتصادی اور زرعی تجزیہ نگار مازن عواد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صارفین کے قرض کی رقم مسلسل بڑھ رہی ہے جب کہ بنک فلسطینیوں کو زرعی اور صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری کے لیے رقم دینے سے فرار اختیار کررہےہیں حالانکہ زرعی شعبے میں سرمایہ کاری میں نقصان کا صرف ایک فی صد اندیشہ ہے۔
ترقی کے بغیر قرضے
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ قرض لینے والے شہریوں کو اس چیز کی پرواہ کم ہوتی ہے کہ وہ قرض کی رقم سے کوئی سرمایہ کاری یا ترقیاتی کام شروع کریں بلکہ ان کی تمام تر توجہ اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ آیا وہ بنک کے قرض کو کیوں کر اتار سکتے ہیں۔
بنکوں کے ریکارڈ کے مطابق دو تہائی تنخواہوں کی ادائیگی بنکوں کے ذریعے کی جاتی ہے اور ہر ماہ فلسطینیوں کو قرض کی رقم کی قسط ادا کرنا ہوگی۔
فلسطینی مانیٹری اتھارٹی کے مطابق بنکوں سے رواں سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران کاروں کی مد میں 294 ملین ڈالر کی رقم قرض لی گئی۔ یہ بہت بڑی رقم ہے۔ اگر ہم اس میں کاروں کی خریداری کی رقم بھی شامل کریں تو وہ بہت زیادہ بڑھ جاتی۔
فلسطینی اقتصادی تجزیہ نگار ھیثم دراغمہ کا کہنا ہے کہ صارفین کے قرض میں اضافہ فلسطینی معاشرے کے لیے انتہائی تباہ کن ہے۔ انہوں نے یہ استفسار کیا کہ آیا فلسطینیوں کو قرضوں پرقرض دینے اور انہیں مقروض کرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اوراس سے حقیقی معنوں میں کس کا فائدہ ہو رہا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ صارفین کو قرض میں غرق کرنا بالآخر فلسطینیوں کو صہیونی ریاست پر انحصار کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
اقتصادی حقوق کے آبزر ویٹری فراس جابر نے ہمارے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قرض فلسطینی قوم پر بوجھ ہے اور اس سے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی ایک نئی راہ نکتلی ہے۔