ویسے تو فلسطین کے دو درجن سے زاید عقوبت خانے فلسطینی اسیران پرظلم کے پہاڑ توڑںے اور ان کے عزم کو شکستہ کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں مگر ان میں بعض اپنی انسانیت سوزی میں بدنامی کی حد تک مشہور ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے شمال میں واقع العروب پناہ گزین کیمپ سے 3 کلو میٹر کی مسافت پر واقع "عتصیون” قید خانہ بھی ہے۔ غرب اردن کے جنوبی اضلاع بالخصوص الخلیل اور بیت لحم سے گرفتار کیے جانے والے فلسطینیوں کو سب سے پہلے اسی حراستی مرکز میں لے جایا جاتا ہے۔
یہ حراستی مرکز اسرائیلی فوج کی زیرنگرانی قائم ہے جس میں اسرائیل کی سول جیل انتظامیہ کا کوئی تعلق نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عتصیون جیل کے تمام امور، اس کے اندر قیدیوں کے ساتھ برتائو اور دیگر سب کچھ فوج ہی انجام دیتی ہے۔ یہ وہ بدنام زمانہ عقوبت خانہ ہے جس میں فلسطینی اسیران کو ادنیٰ درجے کے حقوق بھی میسر نہیں۔ یہاں کسی غیر ملکی مبصر یا انسانی حقوق کے مندوب کو وہاں رسائی نہیں دی جاتی اور وہاں پرلائے جانے والے فلسطینی صرف صہیونی جلادوں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
صہیونی فوج کے مظالم
انسانی حقوق کے اداروں کے ذرائع کے مطابق ‘عتصیون’ قید خانے میں کسی بھی فلسطینی کو لانے کے فوری بعد اس پر جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد شروع ہو جاتا ہے۔ کسی اسیر کو اپنے اہل خانہ سے رابطے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی قیدی اپنی مرضی وکیل کی خدمت حاصل کرسکتا ہے۔
جیل کے تمام قوانین اسرائیلی فوج کے وضع کردہ ہیں جن میں فلسطینیوں کو کوئی حقوق حاصل نہیں۔ ان کی منظم انداز میں توہین اور تذلیل کی جاتی ہے۔ زخمی حالت میں لائے گئے اسیران یا بیمار قیدیوں کو کسی قسم کے علاج کی سہولت مہیا نہیں کی جاتی۔
‘عتصیون’ حراستی جرمنی کے نازیوں کے قائم کردہ حراستی مراکز کی ایک نئی شکل ہے جہاں قیدیوں کے بنیادی حقوق کا منظم انداز میں "ہولوکاسٹ” کیا جاتا ہے۔ اگر انسانی حقوق کا کوئی ادارہ قیدیوں کے حالات کی جان کاری کے لیے اپنا وفد بھیجنا چاہے تو اسے اس کی اجازت حاصل کرنے لیے بہت پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ یہاں لائے جانے والے ہر فلسطینی کو ملزم نہیں بلکہ مجرم تصور کیا جاتا ہے۔ صہیونی فوجی اسیران کے خلاف عدالتوں میں عاید کردہ الزامات کے ثبوت پیش نہیں کر پاتے مگر اس کے باوجود اسیران کو مجرم ہی قرار دیا جاتا ہے اور ان کے ساتھ جنگی مجرموں والا سلوک کیا جاتا ہے۔
صہیونی عقوبت خانے ‘عتصیون’ میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی کو اسرائیلی سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا۔ اسیران کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے "کلب برائے اسیران” نے صہیونی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دی جس میں عدالت سے اپیل کی گئی کہ وہ عتصیون حراستی مرکز میں قیدیوں تک انسانی حقوق کے کارکنوں کو رسائی دلوائے تاہم صہیونی عدالت نے ان کی درخواست مسترد کردی حالانکہ اس درخواست کی پیروی کئی وکلاء مل کر رہے تھے۔
کلب برائے اسیران کے ڈائریکٹر امجد النجار نے "مرکز اطلاعات فلسطین” کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘عتصیون’ حراستی مرکز نازیوں کے دور کے فوجی کیمپوں سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس قید خانے میں فلسطینی اسیران کو ادنیٰ درجے کے انسانی حقوق بھی میسر نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ‘عتصیون’ جیل میں قید فلسطینیوں کو موت کے مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔ انہیں بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پیشہ ور سفاک جلاد ان پر مسلط کیے جاتے ہیں جو بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ نہتے اسیران پر ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ ظلم کے اس بدترین حربے کا مقصد اسیران کے عزم کو شکست خوردہ کرنا اور تشدد کے ذریعے انہیں اقبال جرم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔
اسرائیل کا ٹرائل
انسانی حقوق کی تنظیم "الحق” فائونڈیشن کے ڈائریکٹر جنرل شعوان جبارین نے کہا کہ ‘عتصیون’ اور دیگر اسرائیلی قید خانوں میں اسرائیلی فوج قیدیوں کے ساتھ جو برتائو کررہی ہے وہ انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی اور جنیوا معاہدے کے تحت وضع کردہ اصولوں کی توہین ہے۔
جبارین نے کہا کہ ‘عتصیون’ عقوبت خانے میں ڈالے گئے سیکڑوں فلسطینیوں کو بدترین جسمانی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بار بار اسرائیلی مظالم کی طرف توجہ دلاتی ہیں مگرعملا صہیونی حکام کے مظالم کی روک تھام کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ عتصیون حراستی مرکز میں قیدیوں پر مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر اسرائیل کی فوجی اور سیاسی لیڈرشپ کا ٹرائل ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘عتصیون’ قید خانے میں تشدد اور اذیتوں کا سامنا کرنے والے قیدیوں کی بڑی تعداد صہیونی مظالم کے عملی گواہ ہیں۔
کلب برائے اسیران کی مندونہ جاکلین الفرارجہ کا کہنا ہے کہ 26 سالہ اسیر عمر محمد شحادہ کو اسرائیلی فوج نے ایک حراستی مرکز میں طلب کرکے وہاں سے 15 نومبرکو حراست میں لیا۔ اس کے بعد اسے ‘عتصیون’ جیل منتقل کردیا گیا۔
شحادہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ جب وہ اپنے موکل سے ملنے گئے تو اس نے انہیں بتایا کہ جیل میں منتقلی کے بعد اس پر تشدد کے چار صہیونی فوجی جلاد مسلط کیے گئے جو درندروں کی طرح اس کے ساتھ بد سلوک کرتے تھے۔ شدید سردی میں انہوں نے شحادہ کو زمین پر نیم برہنہ کر کے ہاتھ پائوں باندھ کر پھینک دیا تھا۔
اسیران کے ایک اور گروپ نے اپنے ساتھ ہونے والے مظالم کی تفصیلات بیان کیں۔ ان اسیران نے بتایا کہ اسرائیلی جلادوں کے وحشیانہ تشدد سے ان کے جسم خون میں ڈوب گئے مگر صہیونی فوجی انہیں مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے رہے۔
اسیر محمد حسن نواورہ نے انسانی حقوق کے ایک مندوب کو بتایا کہ عتصیون جیل میں اس پر اس قدر تشدد کیا گیا کہ اس کا بایا بازو ٹوٹ گیا۔ اسے جیل میں کسی قسم کی طبی سہولت بھی مہیا نہیں کی گئی۔کلب برائے اسیران کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ ایک رپورٹ میںبتایا گیا ہے کہ عتصیون قید خانے میں لائے گئے 95 فی صد قیدیوں کو انسانیت سوز جسمانی ، نفسیاتی اور ذہنی ٹارچر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔