شنبه 22/مارس/2025

عز الدین القسام کا نام آج بھی میدان جنگ میں گونجتا ہے

جمعرات 22-نومبر-2018

رواں سال 9 نومبر کو فلسطین کے معروف مزاحمت کار عز الدین القسام کی شہادت کے 83 سال مکمل ہوگئے ہیں۔ عزالدین القسام 1935ء میں برطانوی فورسز کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔

القسام سکالر، مبلغ، جنگجو اور ایک نامور رہنما تھے۔ ان کا نام آج بھی دشمن کے ساتھ ہر معرکے میں دھرایا جاتا ہے۔

عزالدین القسام 1883ء میں شام کے شہر الاذقیہ کے قصبے جبلہ میں پیدا ہوئے تھے اور وہ 14 سال کی عمر میں قاہرہ کے عالمی شہرت یافتہ ادارے الازھر سے منسلک ہوگئے تھے۔ وہ 1906ء میں تعلیم سے فارغ ہو کر شام واپس لوٹ گئے۔

شام میں وہ بطور استاد کام کرنے لگے۔ انہوں نے شام میں اپنے طلباء کے ہمراہ فرانسیسی حکام کے خلاف بغاوت کا علم اٹھایا۔ فرانسیسی حکام نے ان کو قتل کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں وہ الاذقیہ سے دمشق چلے گئے۔ اس کے بعد وہ فلسطینی شہر حیفہ میں آگئے جو کہ اس وقت برطانوی راج میں تھا۔ انہوں نے استقلال مسجد میں تعلیم سکھانے کا بیڑا اٹھایا۔

انہوں نے 1926ء میں حیفہ میں مسلمان نوجوانوں کی تنظیم میں شمولیت اختیار کی اور کچھ عرصے بعد وہ اس کے صدر منتخب ہوگئے۔ ان کی تنظیم سے وابستگی ان کی خفیہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے میں کامیاب رہی اور وہ برطانوی راج کے خلاف بغاوت کا علم اٹھانے کی تیاری کرنے لگے۔

ان کی القسام لیگ میں کسی عام شہری کو شمولیت کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور ہر رکن کو جانچ پڑتال کی ایک بڑی مشق سے گزرنا پڑتا تھا اور اس کے بعد بھی مادر وطن پر جان نچھاور کرنے کی خواہش رکھنے والے افراد کو اس میں شمولیت کی اجازت دی جاتی تھی۔

مورخین کے مطابق القسام نے اعلان بغاوت سے پہلے اپنے واحد ہتھیار علم کو استعمال کرتے ہوئے بغاوت کی روح کو معاشرے میں پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی۔

القسام لیگ

الاستقلال مسجد میں مبلغ کے طور پر سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے عز الدین القسام نے عوام کو برطانوی راج کے بغاوت کرنے کے لئے ابھارا اور وہ نوجوانوں کے ساتھ القسام لیگ کے نام سے ایک تنظیم بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کے نتیجے میں برطانوی حکام ان کو پکڑنے کے درپے ہوگئے۔

انہوں نے حیفہ شہر کو چھوڑ کر جنین کے دیہات یعبد کے قریب موجود جنگل میں رہائش پذیر ہوگئے۔ انہوں نے برطانوی حکام کے خلاف متعدد معرکے لڑے جس میں وہ دشمن کو کاری ضرب لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ 

شہادت کا اعزاز

یعبد گائوں کے قریب خربت شیخ زید کے علاقے میں برطانوی فوج نے جنگجوئوں کو محاصرے میں لے لیا۔ انگریزی افسر نے جنگجوئوں کو کہا کہ اگر ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو جان بچ جائے گی۔ اس کے جواب میں عزالدین القسام نے جواب میں کہا کہ "ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے، اب فتح ہوگی یا شہادت۔” انہوں نے اپنے جنگجوئوں کو کہا کہ "شہادت کی موت کو گلے لگا لو” جس کے جواب میں انہوں نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے جوش جذبے سے بھرپور جنگ لڑی۔

انہوں نے چھ گھنٹے تک آخری گولی تک لڑائی کی جس کے نتیجے میں 15 برطانوی فوجی ہلاک ہوگئے۔ اس موقع پر عزالدین القسام اور ان کے تین جنگجو بھی شہید ہوگئے۔

القسام دیگر شہداء کی طرح اپنی ٹانگوں پر کھڑے ہوئے تھے جب ان کی روح نے ان کے جسم کو چھوڑا۔ ان کے دوست اور دشمنوں  نے ان کی شہادت کے بعد ان کے جذبے کو خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے خلاف مہم کے ذمہ دار برطانوی افسر نے ان کے حوصلے کی داد دیتے ہوئے ان کے لاشے کو فوجی سیلیوٹ بھی کیا تھا۔

عزالدین القسام کی اس عظیم شہادت کی یاد میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] نے اپنے مسلح ونگ کا عزالدین القسام بریگیڈز رکھا جو کہ ہر معرکے میں عظیم فلسطینی رہنما کے نام کی لاج رکھتے ہوئے صہیونی جرائم کا ہر ممکن مقابلہ کرتی ہے۔ القسام بریگیڈز کی حالیہ فتوحات میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا موثر جواب ہے جس کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر جنگ لائبرمین استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگیا تھا۔

مختصر لنک:

کاپی