اسرائیلی سپریم کورٹ نے بیت المقدس کے خاندان کی جانب سے بے دخلی کے نوٹس کے خلاف اپیل کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عمارت کی ملکیت کے حوالے سے کیس سننے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی عدالت کے اس فیصلے کے نتیجے میں بیت المقدس کے علاقے شیخ جراح میں بسنے والے فلسطینی خاندان کے 30 بچوں سمیت 40 ارکان کو مہینوں کے اندر اپنے گھروں کو چھوڑنا پڑے گا۔
اس فیصلے کے نتیجے میں شیخ جراح سے تعلق رکھنے والے دیگر فلسطینی خاندانوں کو بھی بے دخلی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دستاویزات کے مطابق یہ خاندان 1956ء سے شیخ جراح میں رہ رہا ہے اور اس سے پہلے وہ یافا سے ہجرت کر کے شیخ جراح میں آئے تھے۔ یافا میں ان کے دو گھر ابھی تک موجود ہیں اور انہوں نے ان کی تصاویر کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔
املاک کے قانون کے مطابق 1948 سے پہلے کی املاک کو متروکہ قرار دے کر ریاست کی ملکیت قرار دیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب لازم نہیں کہ یہ تمام املاک یہودیوں کی ہوں گی۔
فلسطینی خاندان 2008 سے بے دخلی کے حکم کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ان کے وکلاء نے مقامی عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ یہ زمین مقامی لینڈ رجسٹری میں باقاعدہ رجسٹر نہیں کی گئی ہے۔ انہوں نے عدالت سے اس زمین کی ملکیت پر فیصلہ دینے کا استدعا کی تھی۔