مئی 2016ء کو اسرائیل کے انتہا پسند سیاسی لیڈر آوی گیڈور لائبرمین نے صہیونی ریاست میں وزارت دفاع کا قلم دان ہاتھ میں لیا۔ انہوں نے وزارت دفاع کا قلم دان ہاتھ میں لینے سے قبل ایک بیان میں کہا کہ اگر انہیں وزارت دفاع کا قلم دان سونپا گیا وہ غزہ کی پٹی میں نہ صرف حماس کی حکومت کا تختہ الٹ دیں گے بلکہ حماس کا مکمل طورپر قلع قمع کردیا جائے گا۔ اس کے بعد وہ وزارت دفاع کے عہدے پرفائز ہوئے اور قریبا اڑھائی سال سے اس عہدے پر فائز رہے۔
13 نومبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں داخل ہو کرفلسطینی مزاحمت کاروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی مگر مزاحمت کے دوران سات فلسطینی شہید، ایک اسرائیلی فوج افسر ہلاک اور ایک زخمی ہوگیا۔ یوں صہیونی فوج جس خطرناک مشن کے لیے غزہ میں گھسے تھے وہ بری طرح ناکام رہے۔ اسرائیلی فوجی جب فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان گھر گئے تو اسرائیلی فضائیہ نے ان کی مدد کی اور انہیں فلسطینی مزاحمت کاروں کے حصار سے نکال لیا۔
اس کارروائی کے دو روز بعد اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈور لایبرمین نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ چونکہ غزہ کی پٹی میں ان کی منشاء کے مطابق فوجی کارروائی نہیں کی گئی، اس لیے وہ وزارت دفاع کےعہدے سے مستعفی ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قطر کی جانب سےغزہ کو لاکھوں ڈالر کی گرانٹ فراہم کرنے پربھی اعتراض تھا مگر میری بات نہیں مانی گئی۔ میں غزہ میں حماس کا تختہ الٹنے اور جماعت کا نیٹ ورک ختم کرنے کے لیے کوشاں تھا۔ مگر صہیونی وزیر دفاع اپنے مشن میں بری طرح ناکام رہا۔
لائبرمین کے استعفے سے قبل اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے دفترسے جاری ہونے والے ایک بیان میںکہا گیا تھا کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ کیا گیا ہے اور اس پر کابینہ کے تمام ارکان کا اتفاق ہے۔ بیان میں لائبرمین کے اس بیان کی تردید کی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے وہ متفق نہیں تھے۔
ویژن کا فقدان
فلسطینی تجزیہ نگار رامی ابو زبیدہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیلی وزیر دفاع کا غزہ میں جنگ بندی کے معاملے پر استعفیٰ اس بات کا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست کے پاس غزہ کے معاملے سے نمٹنے کے لیے کسی قسم کا واضح ویژن نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لائبرمین کا استعفیٰ اسرائیلی فوج اور سیکیورٹی اداروں کی واضح ناکامی ہے۔ صہیونی ریاست غزہ کے حوالے سے ذمہ داریوں سے فرار کے ساتھ موثر فیصلہ سازی میں ناکام ہوچکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ لائبرمین کا وزارت دفاع کے عہدے سے استعفیٰ فلسطینی مزاحمتی حکمت عملی کے سامنے ناکامی کا اعتراف ہے۔ اگرچہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور اسرائیل کے درمیان طاقت کا توازن میں بہت بڑا فرق ہے مگر اس کے باوجود فلسطینی مزاحمت کاروں نے دشمن کے طاقت کے توازن کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں ایک فلسطینی مجاھد نورالدین برکہ اور ان کے چھ ساتھیوں کو شہید کرنے کی کارروائی کے بعد دشمن کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ فلسطینی مزحمت کاروںنے جوابی کارروائی میں کیا کچھ کیا ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے 450 راکٹ داغے گئے جس کے نتیجے میں عسقلان میں دو یہودی ہلاک اور 100 سےزاید زخمی ہوگئے۔
ناکامی کا راستہ
اسرائیلی امور کے ماہر فلسطینی دانشور ایمن الرفاتی نے کہاکہ آوی گیڈور کے استعفے کی ایک زمانی اہمیت ہے۔ انہوں نے استعفیٰ دے کریہ تاثر دیا ہے کہ وہ جن سیاسی مقاصد کے لیے حکومت میں آئے تھے وہ پورے نہیںہوسکے ہیں۔ وہ غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی حق واپسی روکنے میں ناکام رہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے الرفاتی نے کہا کہ وزارت دفاع کا منصب سنھبالنے سے قبل لایبرمین نے جو وعدے کیے تھے وہ ان میں سے ایک بھی پورا نہیں کرسکے ہیں۔ انہوںنے وعدہ کیا تھا کہ وہ غزہ میں حماس کی حکومت کو ختم کریں گے۔
ایک سوال کے جواب میں فلسطینی تجزیہ نگار نے کہا کہ موجودہ حالات میں لائبرمین کے استعفے کی کوئی سیاسی وقعت نہیں اور نہ ہی ان کا استعفیٰ غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے جاری مصری مساعی پراثر انداز نہیں ہوسکتی۔