گذشتہ اتوار 13 نومبر2018ء کو اسرائیل کی اسپیشل فورس کے اہلکار سادہ لباس اور عام پک اپ گاڑیوں میں فلسطین کے علاقے غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں سرحدی باڑ سے 3 کلو میٹر اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے خان یونس کے یونٹ کمانڈر نور الدین برکہ سمیت 7 فلسطینیوں کو قاتلانہ حملے میں شہید کر دیا۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے نورالدین برکہ کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے۔
جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کے مشرقی علاقے بنی سھیلا کے بسنے والے نورالدین برکہ کی زندگی سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ وہ علم فضل، زہد وتقویٰ، خشیت الٰہی، قرآن کے حافظ، اخلاق حسنہ کےپیکرملک وقوم کے سپاہی اور جہاد فی سبیل اللہ کے جانثارمجاھد تھے۔
نورالدین برکہ حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ جامع القرآت اور قرات عشرہ کےماہر تھے او ان کی سند قرات متواتر سلسلے کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے۔

تیرہ نومبر اتوار کے روز وہ معمول کے مطابق صبح بیدار ہوئے۔ معمول کے مطابق اپنی عبادت، تلاوت اور نماز ادا کی۔ اس کے بعد اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے۔ مگر شام کو وہ قافلہ شہداء میں شامل ہوچکے تھے۔
بنی سھیلا میں گذشتہ روز ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی تو اس میں سیکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں شہری شریک ہوئے۔ یہ جنازہ اس بات کا ثبوت تھا کہ فلسطینی قوم میں برکہ کی کتنی عزت اور مقام تھا۔ شہید کمانڈر کوالوداع کرنے کے لیے جنوبی غزہ کے تمام قصبوں اور شہروں سے لوگ قافلوں کی شکل میں بنی سھیلا پہنچے۔

نورالدین برکہ ایک خاموش طبع شخصیت تھے۔ عنفوان شباب میں ان کا تقویٰ اور خدا خوفی ان کے ہم عصر نوجوانان ملت کے لیے ایک عملی نمونہ ہے۔ وہ کم عمری میں مجاھدین کی صحبت میں وقت گذارنے لگے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وطن سے محبت اور غاصب دشمن کےلیے نفرت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ اطاعت خداوندی اور محبت رسول کا وہ عملی نمونہ تھے۔
قرآن پڑھتے تو ایسے لگتا کہ خود ان پر نازل ہو رہا ہے۔ قرآن کی تلاوت کے دوران ان پر رقت طاری ہوجاتی۔ اخلاق ایسا کہ زمین پرچلتا پھرتا قرآن تھے زندگی نے ان کے ساتھ وفا نہیں کی اور بالاخر وہ قافلہ شہداء کے ہم راہی ہوئے۔ اللہ کریم ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور مجاھدین فلسطین کو صبرو استقلال اور شہید کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت اور توفیق نصیب کرے۔

شہید کے مقربین کا کہنا ہے کہ نورالدین برکہ نے "ایم اے” کی کلاس کا مقالہ بھی جہاد ہی پر لکھا۔ اس کا عنوان تھا”میدان جہاد میںلاپرواہی کے نتائج”۔ وہ ایک ہی وقت میں مجاھد فی سبیل اللہ ، منبر کے شاہ سوار، خطرات سے پامردی کے ساتھ ٹکرا جانے والا بہادر، اکابر کے علم کو عوام الناس تک پہنچانے والا، مجاھد شمشیر زن، دشمن کی آنکھ میں ہر دم کھٹکتا کانٹا اور میدان کار زار میں دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والا ہیرو تھا۔
ہمشیرہ کے تاثرات
شہید نورالدین برکہ کی ہمشیرہ نے اپنے بہادر بھائی کی شہادت پر دکھ نہیں بلکہ فخر کا اظہار کیا۔ ٹوئٹر پوسٹ کردہ ٹویٹس میں شہید برکہ کی ہمشیرہ ایمان نے لکھا”میرے پاس اپنے مجاھد بھائی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ اس کی پاک ، طاھر اور طیب روح پر خدا کی ہزاروں رحمتیں نازل ہوں۔ برکہ پوری فلسطینی قوم کی روح اور جان تھے۔ وہ ہماری آن اور شان تھے۔ انہوںنے والد اور شہید ہونے والے رہ نمائوں کی وصیت پر عمل کیا اور قافلہ شہداءسے جا ملے۔
دوستوں کے تاثرات
الشیخ محمد بن محمد الاسط نورالدین برکہ کے دوستوں میں شامل ہیں۔ انہوںنے ٹویٹر پر انہیں درج ذیل الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا”میرے شیخ مجاھد بھائی نور برکہ آپ کے چلے جانے کے بعد بھی میں آپ کی روح طاھر کو سلام پیش کرتا ہوں۔ میں آپ کا شمار شہداء کے سرداروں میں کرتا ہوں۔ آپ چلے گئے مگرآپ کا اسوہ اور نمونہ مسلمان نوجوانوں کے لیے تا ابد نمونہ رہے گا”۔
انہوںنے مزید لکھا کہ ایک عشرے سے زاید عرصے سے وہ ہمارے عسکری کمانڈر اور قاید تھے۔ وہ اپنے عز، حوصلے، ولولے، جرات اور بہادری کی وجہ سے دشمن کے حلق میں اٹکا کانٹا تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بزدل دشمن چھپ کر ان پر وار کیا۔ دشمن انہیں اغواءکرنے کی منصوبہ بندی کررہا تھا مگر اللہ کے فضل سے دشمن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا اور دشمن کی ہر چال ناکام ہوگئی۔

گذشتہ جمعہ کے روز انہوں نے نماز جمعہ کے اجتماع سے خطاب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم غلام نہیں اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی غلامی قبول کریںگے۔ وہ ایک ایسے عظیم تھے جن کا تعلق ہر وقت مسجد سے لگا رہتا۔ وہ اپنا زیادہ وقت مسجد میں گذارتے۔ زیادہ وقت فوجی وردی میں اور مسلح رہتے۔
ان کی زندگی کے بعض پہلو بڑے دلچسپ تھے۔ وہ ایک بار مسجد حمزہ میں نماز جمعہ کا خطبہ دینے منبر پر بیٹھے تو اس وقت بھی فوجی لباس میں تھے۔ اس پر لوگ بے ساختہ مسکرادیے۔
ان کے استاد قاری ھانی العلی کا کہنا ہے کہ نورالدین برکہ ان کے شاگرد تھے۔ ان کی شہادت پر ہرآنکھ اشک بار اور ہردل دکھی ہے۔ میرے عزیز دوست ابو عبدالرحمان ہم سب رنجیدہ ہیں۔ ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتے کیونکہ پروردگار کے اپنے فیصلے ہوتےہیں۔