اسرائیل میں جہاں نام نہاد ریاست کےصدر کے اختیارات پہلے ہی محدود ہیں وہاں صدر کے اختیارات مزید کم کرنے کے لیے قانون سازی شروع کی گئی ہے۔
عبرانی اخبار "ہارٹز” نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ کابینہ کی قانون ساز کمیٹی آئندہ اتوار کے روز ہونے والے اجلاس میں ایک آئینی بل پر غور کرے گی جس میں اسرائیلی ریاست کے صدر کے اختیارات محدود کرنے کی تجاویز پر غور کیا جائے گا۔ اگر یہ قانون منظور ہوجاتا ہے تو اس کے بعد صدر کو منتخب پارلیمان میں سے کسی ایک شخص کو وزیراعظم نامزد کرنے کا اور اسے کابینہ تشکیل دینے کی ہدایت دینے کا اختیار ختم ہوجائے گا۔
یہ آئینی بل حکومتی اتحاد میں شامل رکن کنیسٹ "ڈیوڈ امسالم” نے پیش کیا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد صدر مملکت پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے سربراہ کو تجویز دے گا کہ وہ اپنی مرضی سے وزیراعظم کے عہدے کے لیے کسی شخص رکن کنیسٹ کا تقرر کرے۔
عبرانی اخبار کے مطابق وزیرخزانہ "موشے کحلون” نے اس بل کی حمایت کی ہے اور اسے "اعتدال” پسند سوچ کا مظہر تجویز قرار دیا ہے۔ اس کے بعد صدر کے اختیارات مزید کم ہوجائیں گے اور وہ کابینہ کی تشکیل کے لیے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کے کسی رہ نما کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کا مجاز نہیں ہوگا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ آئینی تجویز "امسالم” کی طرف سے پیش کی گئی ہے مگر اس کی اپنی جماعت "کولانو” اس سے متفق نہیں ہے۔
گذشتہ روز ایک پریس بیان میں امسالم نے کہا کہ انہوں نے صدر کے اختیارات سے متعلق آئینی بل پر اختلافات دور کرنے اور حمایت حاصل کرنے کے لیے "کولانو” کے ارکان سے رابطے شروع کر دیے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جلد از جلد اس بل پر رائے شماری چاہتے ہیں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کنیسٹ کو تحلیل کرنے کا حکم جاری کردیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارلیمنٹ صدر کے اختیارات محدود کرنے کے لیے ان کے بل کی حمایت کرے گی۔