فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 30 مارچ سے جاری تحریک حق واپسی کو کچلنے میں ناکامی کے بعد صہیونی سیاسی اور حکومتی حلقوں میں یہ بحث پوری شد ومد کے ساتھ جاری ہے کہ آیا اس معاملے سے کس طرح پر امن انداز میں نمٹا جائے۔ دوسری جانب فلسطینی تحریک حق واپسی کو طاقت سے دبانے کے نتیجے میں صہیونی ریاست کو کافی بدنامی کا سامنا ہے اور اسرائیل اس تحریک کے نقصانات بھی اٹھا رہا ہے۔
صہیونی سیاست دان اور نام نہاد دانشور غزہ کی پٹی کے مستقبل کے بارے میں اسرائیلی لیڈر شب کے منصوبوں پر بحث کر رہے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے صہیونی تجزیہ نگاروں کی آراء کی روشنی میں غزہ کے مستقبل کے بارے میں اسرائیلی منصوبوں پر بحث کی ہے۔
مزاحمتی جواب
فلسیطنی تجزیہ نگار احمد بو زھرہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کی طرف سے اسرائیلی فوج کی حالیہ جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا گیا۔ فلسطینیوں کا بھرپور جواب اسرائیلی فوج اور ریاست کے لیے واضح پیغام کےکہ فلسطینی مجاھدین دشمن کی کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈر لائبرمین اور اسرائیل کی فوجی قیادت میں غزہ کے حوالے سے کسی اقدام کے بارے میں اتفاق رائے اور ہم آہنگی نہیں پائی جاتی۔
ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں لائبرمین نے’ایلات‘ میں ایک کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ غزہ میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوسکتی ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کے کاغذی آتش گیر جہازوں کے پھینکے جانے کا سلسلہ بند ہوگا۔ سرحد پر ’دہشت گردانہ بے چینی‘ برقرار رہے گی۔ جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ غزہ کی پٹی کی سرحد پرامن قائم ہوجائے گا تو وہ خود بھی گمراہ ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گذشتہ جمعہ کے روز اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں 4 فلسطینی شہید اور 230 زخمی ہوگئے۔ تھے۔ اسرائیلی فوج ہر روز بالخصوص ہر جمعہ کو ننگی جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینیوں کو شہید کررہی ہے مگر فلسطینی ہر بار پہلے سے بڑھ کر احتجاج میں حصہ لیتے ہیں۔
اسرائیلی پروپیگنڈہ
مگر لائبرمین کو ایک سینیر عسکری عہدیدار کے بیان نے سخت سیخ پا کیا جس میں یہ کہا گیا ہے کہ فوجی کارروائی کے بجائے ہمیں کشیدگی سے بچنے کے لیے غیر فوجی انداز فکر اپنانا ہوگا۔ غیر فوجی پروگرام میں غزہ کی گزرگاہوں پر نرمی۔ خوراک، پانی، سیوریج، غزہ میں صنعتی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی اور اس کے مماثل دیگر اقدامات ممکنہ جنگ کے خطرات کو ٹال سکتے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو،وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین اور آرکی چیف گیڈی آئزن کوٹ کی بدل بولی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غزہ کے معاملے کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔
تجزیہ نگار انور صالح نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی کابینہ اور سیکیورٹی کمیٹی کے ہر اجلاس میں غزہ کے معاملے کے سفارتی حل کا ایک اور موقع دینے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
انہوں اسرائیلی وزیر دفاع کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لائبرمین کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے غزہ کے لیے کوئی بھی اقدام انسانیت کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ دہشت گردی کے خطرے کی روک تھام کے لیے۔ جب تک غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی رہائی عمل نہیں لائی جاتی اس وقت تک معاملہ مثبت سمت میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اسرائیل چاہے تو غزہ میں کئی سال کی جنگ بندی بھی کر سکتا ہے مگر 10 سال کی جنگ بندی بھی سوائے حماس کے کسی کے لیے مفید نہیں۔
لائبرمین کا کہنا ہے کہ ہمارے خیال میں غزہ کی پٹی کے مسئلے کا حل آگے بڑھ کر حماس کی جنگی صلاحیت پرکاری ضرب لگانے میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر غزہ میں حماس کا نیٹ ورک تباہ ہوتا ہے تو اس کے بعد اسرائیل کو انسانی بنیادوں پر حماس اور محمود عباس سے ماورا بنیادی ڈھانچے کی بہتری کے لیے اقدامات مفید ہوسکتے ہیں۔
غزہ ایک میدان جنگ ہے جس کے عرب اور عالمی سطح پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے مالیاتی سیکٹر کا اپنا رنگ اور ذائقہ ہے۔ اسرائیل، مصر اور سعودی عرب نہیں چاہتے کہ غزہ میں ترکی اور ایران اپنا پیسہ لگائیں جبکہ قطر کا خیال ہے کہ دوسرا کوئی خلیجی ملک غزہ میں مالی مدد نہ کرے۔ اسی طرح صدر محمود عباس ڈونرممالک سے حاصل کردہ امداد غزہ کو منتقل نہیں کرنا چاہتے۔ امریکا اور یورپی یونین بھی کا موقف بھی یہی ہے کیونکہ یہ تمام قوتیں حماس کو دہشت گرد تنظیم خیال کرتی ہیں اور اسے کسی قسم کا مالی تعاون فراہم کرنا دہشت گردی کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کی پٹی کے اقتصادی مسائل کے حوالے سے گومگوں کا شکار ہے۔ ایک طرف اسرائیلی وزیر دفاع غزہ کی پٹی کی سرحد پر نذرآتش ہونے والے فصلوں کے نقصان کے ازالے کے فلسطینی ٹیکسوں سے کٹوتی کا مطالبہ کرتے ہیں تو اسرائیلی وزیر خزانہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ وزیر مالیات کا کہنا ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کو دی جانے والی رقوم اور ٹیکسوں میں مزید کٹوتی کی گئی تو حالات بند گلی کی طرف چلے جائیں گے۔