دوشنبه 05/می/2025

اسرائیلی نشانہ بازوں نے چار فلسطینی بھائیوں کا مستقبل تاریک کر دیا!

اتوار 28-اکتوبر-2018

اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں فلسطینیوں کو دانستہ طور پر نشانہ بنا کر انہیں جسمانی طور پر معذور اور اپاہج کرنے کی مجرمانہ پالیسی پرعمل پیرا ہے، جس کے نتیجے میں فلسطینی نوجوان نہ صرف معذور ہو رہے ہیں بلکہ ان کی معذوری ان کی خواہشات اور مستقبل کی امنگوں کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔

صہیونی ریاست کی اس مجرمانہ پالیسی کا سب سے بڑی مثال غزہ کے ان چار بھائیوں کی لی جاسکتی ہےجو حق واپسی مظاہروں کےدوران اسرائیلی فوج کے نشانہ بازوں کی گولیوں کی بوچھار کے نتیجے میں اپنی ٹانگوں سے معذور ہوچکے ہیں۔

اسرائیلی فوج نے 19 سالہ ابراہیم دیاب کو اس وقت گولیاں ماریں جب وہ غزہ کی مشرقی سرحد پر احتجاجی ریلی میں شریک تھا۔

اس کے بھائی 29 سالہ محمد کو گذشتہ مئی میں اسرائیلی فوجیوں‌ نے گولیاں مار کر زخمی کیا گیا۔ محمد کی ٹانگ اور گردن میں گولیاں لگیں۔ وہ اب ٹانگ سے معذور ہوچکا ہے۔ 28 سالہ بلال کو بھی مئی میں غزہ کی پٹی میں مظاہرے میں شرکت کے دوران گولیاں مار کر زخمی کیا گیا۔

چاروں بھائی زخمی

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ابراہیم دیاب اکتوبر 2016ء سے انتفاضہ القدس پرامن تحریک کے آغاز سے اب تک مسلسل مظاہروں میں شریک رہا ہے۔ زخمی ہونے کے بعد اس کہا کہ میں فٹ بال کا کھلاڑی بننے کا خواب دیکھ رہا تھا مگر صہیونی فوج کی گولیوں نے مجھ سے میرا شوق اور میری منزل چھین لی۔

دیر البلح میں شہداء الاقصیٰ اسپتال میں زیرعلاج چاروں زخمی بھائیوں کا کہنا تھا کہ صہیونی نشانہ بازوں‌نے ان سے ان کا مستقبل چھین لیا ہے۔ وہ فٹ بال کے میدان میں آگے جانا چاہتے تھے مگر دشمن نے انہیں ٹانگوں میں دانستہ طور پر گولیاں ماریں۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابراہیم دیاب نے کہا کہ میں اپنے خاندان میں ٹانگوں سے محروم ہونے والا چوتھا فرد ہوں۔ زخمی ہونے کے باوجود میرا ایمان اور یقین ہے غزہ کی ناکہ بندی ختم ہوگی اور فلسطینی پناہ گزینوں کو واپس ان کے علاقوں میں جانے کا حق دیا جائے گا۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے زخمی ابراہیم دیاب کی چند تصاویر بھی لیں جنہیں سوشل میڈیا پر بھی شیئر کیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں ابراہیم دیاب نے کہا کہ حق واپسی مظاہرے کے تیسرے جمعہ کو میں اپنے دوستوں کے ہمراہ غزہ کی سرحد پر پہنچا تو اسرائیلی فوج کے نشانہ بازوں نے باقاعدہ نشانہ بنا کر ہماری ٹانگوں پر گولیاں ماریں۔

اس کے بھائی محمد دیاب کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے زخمی بھائی کی مدد کی مگر کچھ دنوں کے بعد صہیونی فوج نے مجھے بھی ٹانگوں میں‌ گولیاں مار کر زخمی کردیا۔

سپورٹس ٹیم

ابراہیم دیاب کا کہنا ہے کہ مجھے اپنے زخمی ہونے نے اتنا پریشان نہیں کیا جتنا ڈاکٹر کی زبان سے یہ بات سن کر پریشانی اور دکھ ہوا کہ میں اب اپنا فٹ بال ہیرو بننے کا شوق پورا نہیں کرسکتا۔

اس نے بتایا کہ میں 9 سال کا تھا جب میں نے غزہ کی پٹی میں مقامی فٹ بال ٹیم میں شامل ہونے کا خواب دیکھنا شروع کیا۔ یہ میرا مشن ، مستقبل ،خواب اور مستقبل تھا اور اسی کو میں نے اپنا ذریعہ روزگار بنانا تھا مگر میں اب اس سے محروم ہوچکا ہوں۔

اس کے بھائی محمد نے کہا کہ میں خود بھی فٹ بال کھیلتا ہوں اور ہم چاروں بھائیوں کو فٹ بال کھیلنے اور اسی میں اپنا مستقبل بنانے میں گہری دلچسپی تھی۔

اس نے بتایا کہ ہم نے مل کر ایک مقامی ٹیم بنا رکھی تھی اور ہم فٹ بال کو ایک پیشے کے طورپر اپنانے کی تیاری کر رہے تھے۔

مختصر لنک:

کاپی