فلسطین میں زیتون کا پھل فلسطینیوں کا پیشہ ہی نہیں بلکہ اُس کے ساتھ لاکھوں افراد کی روزی روٹی وابستہ ہے۔ غرب اُردن اور غزہ زیتون کے کاشت کے حوالے سے زیادہ مشہور ہے۔
دریائے اُردن کے مغربی شہروں میںہر دوسرا فلسطینی زیتون کی کاشت کو اہمیت دیتا ہے لوگ آپنی ضرورت کے لئے زیتون کی کاشت کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ انداز میں بھی اِس قدرتی نعمت کی کاشت کاری کرتے ہیں۔ اِس کی وجہ سے ہزاروں فلسطینیوں کو روزگار ملتا ہے۔ قومی آمدن میںاضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیتون کو فلسطین میں سبز خزانہ کہا جاتا ہے۔
یہ سب اپنی جگہ مگر تصویر کا دوسرا رُخ انتہائی خوف ناک اور بھیانک ہے۔ غرب اُردن کے شہروں اور قصبات میں زیتون کے کاشت کاروں کو روز مرہ کی بنیاد پر غاصب صہیونیوں کی منظم غنڈہ گردی کا سامنا ہے۔غاصب صہیونی ایک منظم سازش کے تحت فلسطین میں زیتون کی کاشت،فصلات اور کاشت کاروں کو انقامی کاروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اُردن کے شمالی شہروں نابلس اور سلفیت میں زیتون کے کئیں فارم ہیں۔ مگر فلسطینی کاشت کار آزادانہ کاشت کاری سے محروم ہیں۔
اِن دونوں شہروں کے درمیان "حیفات گیلاد” نامی ایک یہودی کالونی قائم ہے اِس کالونی میں آباد یہودی غنڈے آئے روز فلسطینی کسانوں پر حملے کرتے اور اُن کے زیتون کے باغات کو نقصان پہنچاتے اور اُتاری گئی فصلوں کو تباہ کرتے یا زیتون کے تیار پھل لوٹ لئے جاتے ہیں۔
یہ سب کچھ گزشتہ 17 سال سے جاری ہے۔ رواں سال کے آغاز میں القسام بریگیڈ کے رُکن احمد نصر جرار نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حیفات گیلاد میں فدائی حملہ کر کے رزئیل شیفح نامی یہودی ربی کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کارروائی کے انتقام میں قابض صہیونی حکام رزئیل شیفح کالونی کو جو کہ غیر قانونی تھی قانونی قرار دیا۔ اُس کو پانی اور بجلی فراہم کر دی گئی۔ اِس سے شہہ پا کر یہودی شرپسندوں نے فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے شروع کر دئیے خاص طور پر زیتون کے باغات پر قبضہ کر دیا اور زیتون کے فارمز سے 3 کلومیٹر کی دوری پر شیلٹر بنا کر فلسطینیوں کو بے دخل کرنے کی بھونڈی کوشش کی گئی واضح رہے کہ حیفات گیلاد قالونی کو اماتین اور صرہ قصبوں کی سر زمین پر 2002 میں قائم کی گئی تھی چونکہ یہ قالونی غیر قانونی طور پر یہودیوں نے خود بنائی تھی اس لئے اسے غیر قانونی ہی قرار دیا گیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قالونی زیتون کے کاشتکاروں کے لئے وبال جان بن گئی۔
لوٹ مار اور تباہی
ایک مقامی کاشت کار محمد عصیدہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اِس سال زیتون کی فصل بہت اچھی تھی مگر یہودی آبادکاروں کی لوٹ مار اور تباہی کی وجہ سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہو سکا۔ تل قصبے سے تعلق رکھنے والے عصیدہ کا کہنا تھا کہ رواں سال موسم گرما میں یہودی شر پسندوں نے علاقے میں زیتون کے وسیع کھیتوں کو آگ لگا دی جس کے نتیجے میں زیتون کے 200 درخت جل کر راکھ ہو گئے۔
انہوں نے کہا کہ پیچھلے سال میں نے زیتون کی فصل سے زیتون تیل کے 40 ٹنک تیار کیے۔ تھے رواں سال میں موسم ختم ہونے کو ہے اور ابھی تک وہ زیتون کے تیل کا ایک قطرہ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ یہودی آبادکاروں نے زیتون کے 50 درخت کاٹ ڈالے اور ایک سو درختوں کا پھل چوری کر کے لے گئے۔ عصیدہ کا خاندان الخنادق کے علاقے میں رہائش پذیر ہے۔جس کے پاس 30 دونم زمین ہے رواں ماہ میں عصیدہ اور اُس کے اقارب کو اپنے باغات میں صرف 3 دن کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ اسرائیلی فوج اُنھیں کھیتوں اور باغات میں جانے کی اجازت نہیں دیتے۔ جبکہ یہودی آبادکاروں کو کھلی چُھٹی حاصل ہے۔ جو اُن کے باغات میں گھس کر پھل دار درختوں کو تباہ اور فصلوں کو لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کاشت کار خالد عبدالرحمن نے ہمارے نمائندہ سے بات کرتے ہوئے کہا جب سے یہودی یہاں قابض ہوئے ہیں انہیں نہ تو زیتون کے پھل مل رہے ہیں اور نہ ہی درختوں کا پتہ چلتا ہے۔
فلسطینیوں کو اپنی ہی زمین میںجانے کے لیے قابض اسرائیلی فوج سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس کے بر عکس یہودی آبادکاروں کو کھلی چھٹی ہے وہ جب چاہیں ہماری زمینوں میں گھس جائیں، فصلیں تباہ کریں اور کسانوں کو ہراساں کریں انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔ عبدالرحمن نے کہا یہودیوں کے حملے کے خوف سے فلسطینی کسان اپنی زمینں ویران اور غیر آباد چھوڑنے پر مجبور ہیں۔