شنبه 16/نوامبر/2024

پلاسٹک انسانی قوت باہ ،قوت مدافعت کی تباہی کا باعث

ہفتہ 27-اکتوبر-2018

اپنی نوعیت کی پہلی تحقیق میں، آسٹریا کے سائنسدانوں نے انسانوں میں پلاسٹک کے خُردبینی سائز کے ذرات کی موجودگی کا پتا چلایا ہے۔ پلاسٹک کا استعمال ہماری روز مرہ زندگی میں بہت عام ہو گیا ہے۔ لیکن اب یہ انسانی جسم میں داخل ہوتا جا رہا ہے۔

آسٹریا کے دو بڑے محققین، میڈیکل یونیورسٹی کے ڈاکٹر فلِپ شوابل، اور آسٹریا کے ادارہ برائے ماحولیات کی ڈاکٹر بیٹِنی لِیب مین نے فِن لینڈ، اٹلی، جاپان، نیدر لینڈ، پولینڈ، روس، برطانیہ اور آسٹریا کے باشندوں پر پلاسٹک کے ذرات کے حوالے سے تحقیق کی۔

مائیکرو پلاسٹک، پلاسٹک کے انتہائی چھوٹے ذرات ہیں، جن کا سائز پانچ ملی میٹر سے بھی کم ہوتا ہے۔ ان ذرات کو کاسمیٹک کی اشیا کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکا، برطانیہ، اور جنوبی کوریا سمیت کچھ ملکوں نے پلاسٹک کے ان ذرات کے استعمال کو ممنوع قرار دے دیا ہے۔ لیکن پلاسٹک کے خردبینی ذرات اس وقت بنتے ہیں جب پلاسٹک کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی وقت کے ساتھ شکست و ریخت ہوتی ہے۔

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق، دنیا بھر کے سمندروں میں ہر سال 80 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک شامل ہو جا تا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے اندازوں کے مطابق، سن 2014 میں امریکیوں نے 330 لاکھ میٹرک ٹن پلاسٹک، کوڑے کے طور پر پھینکا تھا۔

مگر کیا یہ پلاسٹک ہمیں بیمار کر رہا ہے؟ ڈاکٹر شوابل اس کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ فی الحال اس بارے کوئی حتمی تحقیق نہیں کی گئی جس سے یہ پتا چلے کہ یہ انسانوں کے لئے خطرناک ہے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جانوروں پر کی گئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کے خردبینی ذرات سے آنتوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور نظام ہضم متاثر ہو سکتا ہے۔

مختصر لنک:

کاپی