جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینیوں کے قتل عام کا اعتراف اور جوابی قانونی تقاضے!

منگل 23-اکتوبر-2018

سابق اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ انہوں نے ساڑھے تین منٹ میں 300 فلسطینیوں کو شہید کیا۔

سابق اسرائیلی وزیردفاع کا فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کا اعتراف اس بات کا ایک نیا ثبوت ہے کہ صہیونی ریاست کیسے کیسے انداز میں فلسطینیوں کے خلاف سنگین جرائم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ کوئی ایک یا استثنائی واقعہ نہیں بلکہ ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد سے آج تک اس طرح کے انت گنت واقعات ظہور پذیر ہوچکے اور جنگی جرائم کے وحشیانہ واقعات کا ارتکاب کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل  کے کسی سینیر سیاسی لیڈر نے فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کا اعتراف کیا ہے۔

اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے ترجمان سامی ابو زھری نے ایہود باراک کے اعترافی بیان کے جواب میں کہا کہ "اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست ہے جو قاتلوں کا ٹولہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ ایہود باراک کے اعترافی بیان کا نوٹس لے اور اس بیان کو فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کے اعتراف کے طور پر لیا جائے۔

قانونی چارہ جوئی

یورو مڈل ایسٹ مرکز برائے انسانی حقوق کی خاتون مشیرہ ایناس زاید نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق صہیونی وزیر دفاع ایہود باراک نے فلسطینیوں‌کے وحشیانہ قتل کا جو اعتراف کیا ہے وہ ایک قانونی قیمت کا متقاضی اور اسرائیلی ریاست کے جرائم میں سے ایک سنگین جرم ہے۔ چند منٹ کے اندر اندر نہتے فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کرنے کے اعترافی بیان پر عالمی برداری کو حرکت میں آنا چاہیے کیونکہ یہ اعتراف بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا کھلا ثبوت ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں‌ نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کے پاس اس حوالے سے قانونی کارروائی کا بہترین موقع ہے۔ بین الاقوامی برادری اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو چاہیے وہ صہیونی ریاست کے جرائم کا محاسبہ کریں  اور ایہودباراک کے اعترافی بیان کو جنگی جرم کے ثبوت کے طور پر پیش کریں۔

خیال رہے کہ سابق اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک نے حال میں ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا تھا کہ اس نے ساڑھے تین منٹ میں 300 فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔

قانونی تقاضا

فلسطینی ماہر قانون ڈاکٹر حنا عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ایہود باراک نے جس سنگین جرم کا اعتراف کیا ہے اس کے بعد اس پر سزا لازمی ہونی چاہیے۔ سنہ 1998ء کے معاہدہ روم کے چیپٹر 3 کے تحت جنگی جرائم کا اعتراف کرنے والوں کو کڑی سزا دینا عالمی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹرعیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایہود باراک کے اعترافی بیان نے عالمی اور اسرائیلی رائے عامہ پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس طرح کے بیانات قتل عام کے اعتراف میں شمار کیے جاتے ہیں۔ عالمی برادری، اسرائیلی سپریم کورٹ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی عدالتیں بھی اس کانوٹس لینے کی مجاز ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں‌نے کہا کہ اگر اسرائیلی ریاست اس طرح کے جرائم میں‌ ملوث ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ اسرائیل کے کسی سینیر عہدیدار نے اپنے سنگین نوعیت کے جنگی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس نوعیت کے جرائم کی تعداد ہزاروں میں ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر عیسیٰ کا کہنا تھا کہ ایہود باراک کے بیان کے بعد عالمی سلامتی کونسل کو حرکت میں آنے کے ساتھ انسانی حقوق می بین الاقوامی تنظیموں کو بھی اس کا سختی سے نوٹس لینا چایئے۔

مختصر لنک:

کاپی