ان دنوں فلسطینی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر دفاع ایہود باراک کے ایک بیان کے کافی چرچے ہیں۔ ایہود باراک نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نا اہل ہے اور اس نے فلسطینیوں کے سامنے ہتھیار ڈال رکھے ہیں۔ غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے حوالے سے اسرائیلی حکومت کی پالیسی بزدلانہ ہے اور وہ حماس کو نکیل ڈالنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ جب میرے ہاتھ میں حکومت تھی تو میں نے صرف ساڑھے تین منٹ میں 300 فلسطینیوں کو شہید کرا دیا تھا۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے ایہود باراک کے اس بیان کی روشنی میں فلسطینیوں کو اس قتل عام کی تفصیلات بیان کی ہیں جب قابض فوج نے غزہ پر آگ اور بارود کی بارش برسا کر صرف چند منٹ میں سیکڑوں فلسطینیوں کو موت کی نیند سلا دیا۔
یہ سنہ 2008ء اور 2009ء کا واقعہ ہے جب قابض صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی پر قریبا ایک ماہ تک قیامت ڈھائے رکھی۔ اس جنگ میں فلسطینیوں کے وحشیانہ قتل عام کے واقعات کو فلسطینی قوم کبھی ذہن سے نکال نہیں پائے گی۔
27 دسمبر 2008ء دن کے ساڑھے گیارہ بجے اسرائیلی فوج نے غزہ ک پٹی پر وحشیانہ فضائی حملے شروع کردیے۔ ایک اندازے کے مطابق قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر 2000 پائونڈ بارود صرف چند منٹ کے اندر اندر برسا دیا، جس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سیکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوگئے۔ یہ وہ موقع تھا جب غزہ کی پٹی پر ایہود باراک کے حکم پر ساڑھے تین منٹ میں 300 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ اس کے بعد سنہ 2012ء اور 2014ء میں اسرائیل نے غزہ کو جنگ کا میدان بنایا اور ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔
حال ہی میںعبرانی اخبار "معاریف” سے بات کرتے ہوئے ایہودباراک نے کہا کہ جب میں وزیر دفاع تھا کہ ساڑھے تین منٹ میں حماس کے 300 کارکنوں کو شہید کردیا تھا۔ یہ ہماری فضائیہ کا حماس کے خلاف کامیاب آپریشن تھا۔
سنہ 2009ء کی اس جنگ کو آپریشن "لیڈ کاسٹ” کا نام دیا تھا جب کہ فلسطینی مجاھدین نے اسے "معرکہ فرقان” کا نام دیا۔ یہ جنگ 23 دن تک جاری رہی اور اس میں 1500 فلسطینی شہید کر دیے گئے تھے۔
اس جنگ میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے صہیونی شہروں پر 980 راکٹ اور گولے داغے۔
پہلا حملہ
سنہ 2008،2009ء کی جنگ کے دوران صہیونی فوج کا غزہ کی پٹی پر یہ پہلا حملہ تھا۔ اس میں اسرائیل کے 60 جنگی طیاروں نے بے گناہ فلسطینی شہریوں پر ساڑھے تین منٹ میں 250 مقامات پر بمباری کی۔ بمباری میں زیادہ تر نشانہ بننے والی شہری املاک، مکانات، اسکول، اسپتال اور مساجد تھیں۔ سنہ 1967ٌء کے بعد فلسطین کے کسی علاقے پر صہیونی فوج کا یہ سب سے خوفناک اور وحشیانہ حملہ تھا جس کے نتیجے میں سیکڑوں بچے اور خواتین کو خون میں نہلا دیا گیا۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج بار بار غزہ کی پٹی کے اسپتالوں، اسکولوں اور شہری آبادی پر بم باری کرتی رہی۔ اس دوران بے گناہ فلسطینیوں کو شہید اور زخمی کیا جاتا رہا۔ وحشیانہ بم باری کا مقصد غزہ کے عوام میں خوف وہراس پھیلا اور بے گناہ فلسطینیوں کو بے رحمی کے ساتھ موت کی نیند سلانا تھا۔
صہیونی فوج نے اس پہلے جارحانہ حملے میں 20 اسکول، 15 کم سن بچوں کے مراکز، کئی اسپتال اور مساجد کو شہید کرکے یہ ثابت کیا کہ صہیونی ریاست دنیا کی بدترین دہشت گرد وحشی لوگوں پر مشتمل ہے۔
سب سے خونی لمحہ
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قابض فوج نے 2000 پائونڈ وزنی چار بھاری بم گرائے۔ یہ بم فلسطینی سیکیورٹی ہیڈ کواٹر پر برسائے گئے تھے۔ یہ ہیڈ کواٹر 10 دونم پر پھیلا تھا۔ بم باری کے نتیجے میں پورا ہیڈ کواٹر زمین بوس کر دیا گیا۔ اس کے اطراف میں چار اسکول، بچوں کے تعلیمی مراکز،، ہلال احمر فلسطینی کے مرکز، القدس اسپتال اور دسیوں مکانات کو بھی مسمار کر دیا گیا۔
چونکہ یہ وحشیانہ بم باری اسی لیے کی گئی تھی تاکہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینیوں کا جانی نقصان ہو۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ 41 سال میں یہ سب سے خونی لمحہ تھا۔ دن ایک بج کر 30 منٹ پر اسرائیلی جنگی طیاروں نے فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی "اونروا” کے ایک تربیتی مرکز اور اسکول پر بمباری کی جس کے نتیجے میں 09 طلبا اور چار دیگر شہریوں سمیت 13 فلسطینی شہید جب کہ 43 زخمی ہوئے۔
انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس کے مطابق چونکہ صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی پر اچانک حملہ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 238 پولیس اہلکاروں سمیت 334 فلسطینی شہید ہوگئے تھے۔ ان میں پولیس چیف یجر جنرل توفیق جبر اور دیگر شامل ہیں۔ بمباری میں12 بچے اور چھ خواتین بھی شہید ہوئیں۔ اس جنگ میں اسرائیلی فوج کی وحشیانہ بم باری سے 5000 طلباء زخمی ہوئے تھے۔
تئیس روز تک جاری رہنے والی جنگ میں فلسطینی مجاھدین کے حملوں میں 48 قابض فوجی جہنم واصل ہوئے جب کہ فلسطینی معیشت کو اڑھائی ارب ڈالر کا نقصان پہنچا تھا۔