یکشنبه 11/می/2025

صہیونی جارحیت کے خلاف عرب اقوام میں کتنا دم خم ہے؟

اتوار 21-اکتوبر-2018

اگرچہ عرب ممالک اور عرب اقوام گذشتہ کچھ عرصےسے اندرونی خلفشار کا شکار ہیں۔ بعض ممالک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے اور بعض خانہ جنگی اور داخلی شورش کے تھپیڑے کھا رہے ہیں مگر ان ابتر حالات کے علی الرغم عرب اقوام نے اپنے اولین حیثیت کے حامل مرکزی قضیے یعنی "مسئلہ فلسطین” کو نظرانداز نہیں کیا۔ عرب اقوام کی طرف سے اب بھی فلسطینیوں کے حق میں توانا آواز بلند کی جاتی ہے۔ عرب اقوام کا فلسطینیوں کی حمایت کے دیگر پہلوئوں میں القدس اور الاقصیٰ کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر فوج کشی کی باربار دھمکیوں کے ساتھ غزہ کی سرحد پر فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایسے میں عرب ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے فلسطینی تحریک مزاحمت کی حمایت کرنا ناگزیر تھا مگر بدقسمتی سے سرکاری سطح پر ایسا نہیں دیکھا گیا۔ تاہم ہرطرف سے قومیت کے نعرے ضرور بلند ہوتے دکھائی دیے۔

جب سے عرب ممالک اندرونی خلفشار کا شکار ہوئے ہیں فلسطینی یتیمی کی کیفیت میں ہیں۔ سنہ 2014ء کو اسرائیل کی طرف سے غزہ کی پٹی پر جنگ مسلط کی گئی تو عرب ممالک کے شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ آج اگر صہیونی ریاست غزہ کی پٹی پر جارحیت مسلط کرتی ہے تو عرب اقوام اور عوام کی جانب سے پہلے سے بڑھ کر احتجاج کی توقع ہے مگر حکمران طبقے کی طرف سے کس قسم کا رد عمل سامنے آئے گا اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔

عرب عوام نے اپنے طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ قضیہ فلسطین کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم بعض عرب ممالک کی طر ف سے اسرائیل کے لیے قربت بڑھانے کی کوششیں فلسطینیوں کی حمایت کو متاثر کرسکتی ہیں۔

سنہ 1978ء میں عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوا۔ اس پر عرب عوام کا رد عمل یہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ مراسم قائم کرنے والے ریت میں اپنا سر دھنسانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہیں اس میں بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

تاہم 70 سال کے عرصے کے دوران اسرائیل عرب اقوام کے ذہن سے قضیہ فلسطین کو نکالنے یا مٹانے میں ناکام رہا ہے۔ حکمرانوں کی پالیسیوں سے قطع نظر عرب اور عالم اسلام کے عوام نے ہمیشہ فلسطینی قوم کا ساتھ دیا اور غاصب صہیونی ریاست کے خلاف آواز بلند کی۔

عرب ممالک کے حکمرانوں میں بھی ایسے بہادر، نہ ڈر اور دلیر وغیور رہ نما گذرے ہیں جنہوں‌نے ہرگام پر پوری جرات کے ساتھ فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کی۔ اس کی ایک تازہ مثال کویت کی مجلس الامۃ "پارلیمنٹ” کے اسپیکر ڈاکٹر مرزوق الغانم کی عالمی فورم پر کی گئی تقریر سے لی جاسکتی ہے۔ انہوں نے جنیوا میں عالمی پارلیمانی اجلاس سے خطاب میں صہیونی ریاست کے وہ لتے لیے کہ وہاں پر موجود صہیونی وفد کو بھاگنا پڑا۔

دوسری جانب اردن میں عوامی سطح پر ہم ایک نیا مطالبہ دیکھ رہے ہیں۔ وہ مطالبہ "الباقورۃ”  کے علاقے سے صہیونی ریاست کے تسلط کوختم کرانا ہے۔ اردنی عوام نے مسلسل احتجاج شروع کیا ہے۔ مظاہرین قیام اسرائیل کے وقت سے اردن کے سرحدی علاقوں پرقائم صہیونی قبضہ ختم کرانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ عالمی برادری ان سرحدی علاقوں کو اردن کا حصہ تسلیم کرچکی ہے اور اسرائیل بھی انہیں ایک معاہدے کے ذریعے اردن کے حوالے کرنے کا اشارہ دے چکا تھا تاہم اب صہیونی حکومت اردن کے مقبوضہ علاقے خالی کرانے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ ایسے میں کیا عرب ممالک صہیونی ریاست کی جارحیت کامقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا ان میں غاصب صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کی جرات ہے؟

مختصر لنک:

کاپی