فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں ایک طرف فلسطینی عوام اسرائیلی پابندیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور دوسری طرف صہیونی ریاست نے غزہ پرایک نئی جنگ مسلط کرنے کی تیاری شروع کی ہے۔ حقیقی معنوں میں غزہ اس وقت جنگ کے دھانے پر ہے۔ حالات تیزی کےساتھ ایک نئی اور خوف ناک جنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں نےاسرائیلی دشمن کو بھرپور جواب دینے اور جنگ کی صورت میں مشترکہ مزاحمتی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا اسرائیل کو غزہ پر فوج کشی سے روکا جاسکتا ہے یا کسی میں صہیونی ریاست کو جارحیت سے باز رکھنے کی ہمت ہے؟۔ اگرچہ یہ بات سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ غزہ کا علاقہ پہلے بھی تین جنگوں کا سامنا کرچکا ہے اور اب کی بار یعنی چوتھی جنگ ماضی کی جنگوں کی نسبت زیادہ تباہ کن، خوفناک اور خطرناک ہوسکتی ہے۔
دو روز قبل اسرائیلی کابینہ کا غزہ کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے رات کے وقت خصوصی اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس ساڑھے پانچ گھنٹے جاری رہا مگر اس میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں میڈیا کو کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔ تاہم صہیونی حکام کی طرف سے غزہ پر حملے کی دھمکیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف اسلامی تحریک مزاحمت "حماس” کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے ایک ویڈیو بیان میں دشمن کو کہا ہے کہ وہ غزہ پر حملے کی حماقت نہ کرے ورنہ غزہ کو دشمن فوج کا قبرستان بنا دیں گے۔ ویڈیو بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ صہیونی دشمن نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی مجاھدین کی طاقت اور جنگی و دفاعی تیاریوں کا غلط اندازہ لگایا ہے۔
القسام نے ایک مختصر فوٹیج میں مجاھدین کو وسیع پیمانے پر راکٹ تیار کرتے اور جنگ کی تیاریوں میں مصروف بھی دکھایا ہے۔
ادھر حماس اور غزہ میں حق واپسی مظاہروں کی نگران قومی سپریم کمیٹی نے احتجاج نہ کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کی مشرقی سرحد پر بھرپور احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یہ احتجاج کل جمعہ کو جاری رہا ہے۔ 30 مارچ 2018ء کے بعد یہ احتجاج کا 30 واں ہفتہ ہے۔
ادھر اسرائیل نے زبانی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ غزہ کی سرحد پر فوجی طاقت جمع کرنا شروع کردی ہے۔ غزہ کی سرحد پر فوجی طاقت کا مظاہرہ اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی حکام کی طرف سے فلسطینیوں کو احتجاج سے روکنے کی دھمکیاں کار گر نہیں ہوسکیں۔اب فلسطینیوں کو ڈرانے اور خوف زدہ کرنے کے لیے سرحد پر فوج اور اسلحہ بھی جمع کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی ریاست کی طرف سے غزہ پر فوج کشی کی تیاری اس بات کا اظہار ہے کہ صہیونی دشمن غزہ کی پٹی میں دن اور رات کے اوقات میں ہونے والے مظاہروں، غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں کے جمع ہونے، بحری ناکہ بندی توڑنے اور غزہ سے آتش گیر غبارے سرحد کی دوسری طرف پھینکے جانے کے واقعات کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
بدھ کو غزہ کی پٹی سے ایک راکٹ داغا گیا جو اسرائیلی فوج کے بہ قول بئر سبع میں گرا ہے اور اس کے نتیجے میں متعدد مکانات کو نقصان پہنچا۔ اس کے بعد اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے غزہ پر بمباری شروع کردی اور یکے بعد دیگر 20 مقامات پر بم اور میزائل برسائے گئے۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں ایک فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ غزہ کی پٹی میں عوام کا غم وغصہ قابو سے باہر ہوچکا ہے۔ لوگ اسرائیل کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں سے نالاں ہیں اور انہوں نے ہرقیمت پر اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا عزم کرلیا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے جنگی دھمکیوں کے بعد غزہ میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں مشترکہ سیکیورٹی کنٹرول روم قائم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مصر کی جانب سے سفارتی مساعی بھی جاری ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کی ایک حالیہ رپورٹ میں ماہرین کی رائے لی گئی تھی جن کا کہنا تھا کہ فلسطینی مجاھدین کی جانب سے اسرائیلی جارحیت کا جواب دینے کی تیاری کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم سفارتی مساعی سے انکار کرتے ہیں۔ فلسطینی تنظیموں اور حماس نے غزہ میں حالات کو پرسکون رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے مگر اسرائیل نے 12 سال سے غزہ پر مسلط کردہ ناکہ بندی میں نرمی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔
جہاں تک عالم اسلام اور عرب دنیا کے کردار کا سوال ہے تو اس وقت اسلامی دنیا داخلی شورش کا شکار ہے۔ یمن، شام، عراق جیسے ممالک خانہ جنگی سے گذر رہے ہیں۔ ایسے میں عرب اور مسلمان ممالک کی توجہ اپنے داخلی مسائل پر مرکوز ہے۔ انہیں فلسطینیوں کے مسایل اور مطالبات سے کوئی زیادہ سروکار نہیں۔ ایسے میں اسرائیل کو غزہ کی پٹی پر جارحیت سے کون روکے گا؟