دو اکتوبر2018ء کو سعودی حکومت کے ناقد سینیر سعودی تجزیہ نگار اور صحافی جمال خاشقجی کی استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے میں پراسرار گم شدگی یا مبینہ قتل کے قریبا ایک ہفتے تک اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے کوئی خاص خبر شائع نہیں اور نہ ہی اس واقعے کو زیادہ کوریج دی گئی۔ تاہم ایک ہفتہ گذرنے کے بعد ان چونکہ حالات ایک نئی کروٹ لینے لگے ہیں اسرائیلی اخبارات اور ٹیلی چینلوں نے بھی جمال خاشقجی کے حوالے سے انگڑائی لی ہے۔
جمال خاشقجی کو جہاں سعودی حکومت کی پالیسیوں کا ناقد سمجھا جاتا رہا ہے وہیں وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان غیر رسمی انداز میں بڑھتے تعلقات پر بھی سخت تنقید کرتے رہےہیں۔ اب اگر خاشقجی کی وجہ سے امریکا اور یورپی ممالک ریاض پر دبائو ڈالتے ہیں تو اس کےنتیجے میں تل ابیب اور سعودی عرب کے درمیان قربتوں کے سفر میں تعطل پیدا ہوسکتا ہے۔
اسرائیل سے شائع ہونے والے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار "یروشلم پوسٹ” کےمطابق خاشقجی کی گم شدگی نے ان کے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان قربت پر تنقیدی موقف اور مضامین ایک بار پھراسرائیلی قیادت کے ذہن میں تازہ ہوگئےہیں۔ اخبار میں شائع ہونے والے سیتھ فرانٹزمن کے مضمون میں بھی خاشقجی کی گم شدگی کے کیس کے اسرائیل پر مرتب ہونے والے بالواسطہ اثرات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ فاضل مضمون گار لکھتے ہیں کہ خاشقجی کی گم شدگی یا قتل ایک ایسا واقعہ ہے جس کے تل ابیب پر بالواسطہ طورپر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اگر اس کیس میں سعودی عرب ملوث پایا جاتا ہے تو امریکا کی سعودی عرب کے لیے امداد اور ماضی جیسے گرم جوش تعلقات نہیں رہیں گے۔ اس کے منفی اثرات اسرائیل تک پہنچیں گے۔
"ویب سائیٹ 21” نے اس مضمون کا عربی میں ترجمہ کیا جسے مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنے قارئین کے استفادے کے لیے پیش کیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خاشقجی سعودی عرب کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر بے باک تنقید کرتے رہے ہیں۔ تل ابیب اور الریاض کے درمیان قربت کے حوالے سے آنے والی اطلاعات پر وہ سعودی حکومت کو سخت کوستے، اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے وہ اسرائیل ۔ سعودیہ قربت کو فلسطینیوں کے لیے ‘مہلک’ قرار دے چکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے یہ بہت بڑی غلطی کی ہے کہ اس نے اپنے ذرائع ابلاغ کو ایسی رپورٹنگ کا موقع دیا جس کے نتیجے میں ریاض کی تل ابیب کے ساتھ قربت اور فلسطینیوں کی مخالفت کاتاثر ابھرا ہے۔
اسرائیلی اخبار کے مطابق خاشقجی اپنی تحریروں میں بار بار یہ کہہ چکےہیں کہ سعودی عوام اسرائیل کے ساتھ قربت کے کسی بھی طورپر قائل نہیں، مگر حکومت آمرانہ پالیسی پر چلتے ہوئے رائے عامہ کو نظرانداز کرچکی ہے۔ سعودی عرب اسرائیل کو ایک حقیقی وجود کے طور پر علاقے کی موثر طاقت قرار دیتا ہے جب کہ دوسری طرف اسرائیل بھیی خلیجی ممالک کےساتھ قربت میں سعودی عرب کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
ایران کا فیکٹر
سعودی عرب اور اسرائیل دونوں ایران کے حوالے سے قریبا یکساں موقف رکھتے ہیں۔ دونوں شام کی سرزمین سے ایران کو نکالنا چاہتے ہیں اور اس باب میں امریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ریاض اور تل ابیب کے موقف کے پرزور حامی ہیں۔
خاشقجی ایران کے معاملے کو ایک دوسرے انداز میں دیکھتے تھے۔ انہوں نے ایران کو خطے سے باہر نکالنے کی قیمت پر اسرائیل کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کے قیام کی کوششوں کو خطرناک قرار دیا اور وہ امریکا کی فلسطین۔ اسرائیل کے حوالے سے "صدی کی ڈیل” کو بھی بدترین قرار دے کر کہہ چکے ہیں کہ پس پردہ سعودی عرب اس ڈیل کا حامی ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ خاشقجی کی تحریروں اور تقاریر سے مترشح ہوتا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینی اراضی میں بے گناہ فلسطینیوں کا قتل کررہی ہے۔ وہ اسی بنیاد پر سعودی عرب کی اسرائیل کے لیے قربت کے خلاف ہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار فرانٹزمین کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے معاملے کے منظرعام پرآنے کے بعد اسرائیل کے سیاسی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے کیونکہ اس کیس کے نتیجے میں سعودی عرب کے ساتھ قربت کے اسرائیلی سفر میں رکاوٹ کھڑی ہوسکتی ہے۔ اگر امریکا کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات متاثر ہوتے ہیں تو اس کا منفی اثر سعودی عرب اور اسرائیل کے باہمی تعلقات پر بھی مرتب ہوگا۔ ممکن ہے امریکی اقدامات کے جواب میں سعودی عرب ایسےاقدامات کرے جس سے اسرائیل کو بھی نقصان پہنچے۔
امریکا کے لیے سعودیہ کی اہمیت
مئی 2017ء کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے دورے پر آئے جس کے بعد فورا وہ اسرائیل پہنچے۔ اس سے یہ تاثر سامنے آیا کہ امریکا سعودی عرب اور اسرائیل کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل اور سعودی عرب کو خطے میں اپنی پالیسیوں کا محافظ گردانتا ہے۔ اگر حالات بدلتے ہیں تو اسرائیل کے لیے تشویش یقینی ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے درمیان پہلے سے جاری کشیدگی سعودیہ سے دوری پر مسائل پیدا کرسکتی ہے۔
یروشلم پوسٹ ہی میں ایک دوسرے اسرائیل تجزیہ نگار ھیرب کینون نے "خاشقجی اور یہودی سوال” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔ انہوں نے القدس اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر کے وائس چیئرمین عیران لیرمن کے حوالے سے لکھا کہ”کسی ایک شخص کی وجہ سے سعودی عرب کو مشکل میںڈالنے سے اسرائیل کے لیے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ امریکا کو خاشقجی کے معاملے میں سعودی عرب کےساتھ نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر مشرق وسطیٰ میں کوئی بڑی تبدیلی آتی ہے تو اس کے اسرائیل کی سلامتی پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوسکتےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ خاشقجی کے معاملے سے اسرائیل کا کوئی براہ راست کردار نہیں مگر یہ کیس سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قربت کو متاثر کرسکتا ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکا میں موجود یہودی لابی اور تنظیمیں واشنگٹن پر دبائو ڈال رہیں کہ وہ سعودی عرب پر دبائو ڈالنے کے لیے”ہاتھ ہولا” رکھے۔ اسرائیل سمجھتا ہے کہ کانگریس اور امریکا میں سعودی عرب کی اہمیت امریکیوں کے لیے صہیونی ریاست کے لیے اہم ہے۔ اگر امریکا اور سعودیہ میں تعلقات بگڑتےہیں تو اس کے نتیجے میں اسرائیل کو علاقائی سطح پر مشکلات پیش آسکتی ہیں۔
القدس انسٹیٹوٹ کے جنرل امور کے چیئرمین ڈوری گولڈ جو وزارت خارجہ کے سابق ڈائریکٹر جنرل بھی رہ چکے ہیں کا کہنا ہے کہ خاشقجی کے کیس کو ایران مغرب اور سعودی عرب کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کرے گا۔ یہ اسرائیل کے لیے بہت برا ہوگا۔مشرق وسطیٰ میں ایران کے موقف کو تقویت ملنا صہیونی ریاست کے لیے خطرناک ہوگا۔ اسرائیل پہلے ہی یہ کہہ رہا ہے کہ سعودی عرب کے مقابلے میں ایران طاقت ور اور مضبوط ہے اور ترکی بھی ایران کے حلیفوں میں شامل ہے۔
تل ابیب اور ریاض کے درمیان تعاون جمال خاشقجی کے معاملے کی وجہ سے متاثر ہوسکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کا کہناہے کہ وہ فلسطینیوں کو مذاکرات کی طرف پلٹنے کے لیے لچک دکھانے کی خاطر سعودی عرب کو استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر امریکا اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی پیدا ہوتی ہے تو اس کے اسرائیلی خواہشات پر منفی اثرات مرتب ہوںگے۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا کے لیے سعودی عرب بھی غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات خاشقجی کے کیس سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکا کو ایران کو جوہری طاقت بننے سے روکنا ہے اور اس کے لیے اسے ریاض کا پل پل تعاون درکار ہوگا۔