فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں حالیہ کچھ عرصے کے دوران فلسطینیوں کی طرف سے انفرادی مزاحمتی کارروائیوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ فلسطینیوں کی انفرادی مزاحمتی کارروائیاں فلسطینیوں کا ایک نیا مزاحمتی اسلوب ہے جس میں یہودی آباد کاروں کا رات کا چین اور دن کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
رواں ہفتے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر سلفیت میں "برکان” یہودی کالونی کے قریب ایک نوجوان جس کی شناخت اشرف نعالوۃ کے نام سے کی گئی ہے، نے انفرادی مزاحمتی حملے میں دو یہودیوں کو ہلاک اور تیسرے کو شدید زخمی کردیا۔
اگرچہ نعالوۃ نے دیسی ساختہ "کارلو گوسٹائو” رائفل سے یہودی آباد کاروں پر فائرنگ کی مگر صہیونی حکام یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک انفرادی حملہ تھا جس کے پیچھے کسی تنظیم کا ہاتھ نہیں۔
صہیونی ریاست کے سیکیورٹی ادارے حملہ آور کی مسلسل تلاش میں ہیں، تا دم تحریر انہیں اشرف نعالوۃ کی گرفتاری میں کامیابی نہیں ہوسکی۔ صہیونی حکام کی طرف سے یہودی آباد کاروں کو تسلی دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی ادارے عن قریب یہودی آبادکاروں کے قاتل کو گرفتار کرلے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں اور یہ کہا جا رہا ہے کہ برکان کالونی میں ہونے والی کارروائی میں جس جس کا ہاتھ ہوا اسے سخت سزا دی جائے گی۔
انفرادی کارروائیوں میں اضافے کے اسباب
فلسطینی تجزیہ نگار اور اسرائیلی امور کے ماہر عزام ابو العدس نے "مرکزاطلاعات فلسطین” سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکام فلسطینیوں کی انفرادی کارروائیوں کو "انفرادی جرم” قرار دیتے ہیں۔ ایسی کارروائیاں عموما وہ افراد کرتے ہیں جن کے پیچھے کسی گروپ یا تنظیم کا کوئی ہاتھ نہیں ہوتا۔
اس کارروائی کی منصوبہ سے عمل آوری تک تمام مراحل میں صرف ایک ہی شخص کا کردار ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کی انفرادی مزاحمتی کارروائیاں اسرائیلیوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب ہیں۔ اس کے کئی عوامل ہیں۔ سب سے اہم اسباب سیاسی افق کی بندش، فلسطینیوں کو اجتماعی سزائیں دینا، اقتصادی اور معاشی تنگی،”صدی کی ڈیل” کی وجہ سے پیدا ہونے والی فضا، امریکا اور اسرائیل کے انتقامی اقدامات اور غزہ کی پٹی میں جنگ کے بڑھتے امکانات ہیں۔
فلسطینیوں کی انفرادی نوعیت کی مزاحمتی کارروائیوں میں زیادہ تر”وائیٹ ویپنز” یا تیز دھار آلات قتل، چھوٹی بندوقوں سے فائرنگ، گاڑیوں تلے کچلنا اور دیگر ذرائع کا استعمال ہے مگر ان حملوں کے بھی یہودیوں کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
حالیہ عرصے کے دوران غرب اردن میں یہودی آباد کاروں، صہیونی قابض فوج اور اسرائیلی تنصیبات پر ہونے والے انفرادی حملوں کے نتیجےمیں صہیونی سخت خوف کا شکار ہیں۔
انفرادی کارروائیوں کی خصوصیات
فلسطین میں یہودی آباد کاروں کے خلاف فلسطینیوں کی انفرادی نوعیت کی مزاحمتی کارروائیاں کئی پہلوئوں سے امتیازی خصوصیات کی حامل ہیں۔ کسی منظم گروپ کا سب کو پتا ہوتا ہے اور اس کے خلاف کارروائی انفرادی کارروائیوں کی روک تھام کی نسبت زیادہ مشکل ہوتی ہے۔
اس کی مثال "برکان” یہودی کالونی سے لی جاسکتی ہے۔ اس کارروائی کا صہیونی فوج کو اس کے واقع ہونے تک کوئی علم نہیںہوسکا۔ حملہ آور کارروائی کے بعد بہ حفاظت فرار ہونے میںکامیاب ہوگیا اور اب تک وہ روپوش ہے اور اسے تلاش نہیں کیا جاسکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اجتماعی کارروائیوں کی نشاندہی کرنا اور ان کی جاسوسی یا پتا چلانا انفرادی منصوبہ بندی کی نسبت مشکل ہوتا ہے۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے انفرادی کارروائیوں کا پتا چلایا جاسکتا ہے۔
ابو العدس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور صہیونی سیکیورٹی اداروں کے پاس فلسطینی تنظیموں کی مزاحمتی کارروائیوں کی روک تھام کا وسیع تجربہ ہے۔ تنظیموں کے نیٹ ورک، اس کے ارکان کے باہمی رابطوں، رقوم کی منتقلی، اسلحہ کہ خریداری اور دیگر امور کا پتا چلایا جاسکتا ہے مگر انفرادی کارروائیاں اس اعتبار سے ممتاز ہوتی ہیں کہ ان کا بہ آسانی پتا نہیں چلایا جاسکتا۔
اس کا دوسرا عامل کارروائی میں آسانی ہے۔ انفرادی کارروائی کرنے والا اسلحہ،آلات، گاڑی اور دیگر اشیاء آسانی کے ساتھ اپنے ہدف تک پہنچا سکتا ہے۔