مسجد اقصیٰ کے امام اور خطیب الشیخ عکرمہ صبری نے کہا ہے کہ فلسطینی قومی املاک کو دشمنوں کو فروخت کرنا ناقابل معافی جرم ہے اور ایسا کرنے والے ملک وقوم کے خائن اور ملت اسلامیہ سے خارج ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق الشیخ صبری نے یہ بات بیت القدس میں سلوان اور حارۃ السعدیہ میں دو فلسطینی املاک پر یہودیوں کے قبضے کے تناظر میں کہی۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ املاک کچھ مقامی عناصر کی ملی بھگت سے یہودیوں کو فروخت کی گئی ہیں۔
انہوںنے کہا کہ فلسطینی املاک پر دست درازی کو حرام قرار دینے کے لیے 1935ء میں فلسطین میں متفقہ طورپر ایک فتویٰ صادر کیا گیا۔ اس فتوے کی پورے عالم اسلام کے علماء نے توثیق کی۔
فلسطینی دار الافتاء کی طرف سے مفتی اعظم کے دستخطوں سے جاری شدہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ ’ارض فلسطین خراجی اور وقف املاک میں شامل ہے جس کی دشمنوں کو خریدو فروخت شروع حرام ہے۔
فتوےمیں کہا گیا ہے کہ القدس کی اراضی دشمنوں کو دینے والا گناہ گار ہوگا۔ اراضی کی فروخت کے عوض معاوضہ لینے والے بھی گناہ گار ہوں گے کیونکہ فلسطینی اراضی کے کسی ٹکڑے کو دشمن کو شرعا فروخت نہیں کیا جا سکتا ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے کہ دشمنوں فلسطینی اراضی کا مالک بنانے میں مدد کرنا کفار کے ساتھ وفاداری اور اسلام و فلسطینی قوم کے ساتھ بد عہدی تصور کی جائے گی۔ ایسے لوگ ملت اسلام سے خارج، اسلام کے دشمن، اللہ اور اس کے رسول کے خائن اور دین اور وطن کے لیے باعث عار ہوں گے۔
مفتی اعظم نے عالم اسلام پر زور دیا کہ وہ دشمنوں کا ہرسطح پر بائیکاٹ کریں، ان کے ساتھ لین دین ختم کریں، دشمن کے ساتھ ساز باز کرنے والوں کا بھی بائیکاٹ کریں۔ ایسے منافقوں کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہوں اور نہ ہی انہیں مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن کریں۔
الشیخ عکرمہ صبری کا کہنا ہے کہ یہ فتویٰ آج بھی رائج اور نافذ ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے خائن اور ضمیر فروش ہیں۔ان کا اسلام اور دین اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔