اسرائیلی حکام کی جانب سے صہیونی ریاست کے عالمی سطح پر بائیکاٹ کرنے کی مہم چلانے والے کارکنوں پر پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
عبرانی اخبار "ہارٹز” کی نامہ نگار ‘نوعا لانڈوا’ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گذشتہ ہفتے اسرائیلی حکام نے امریکا سے آنے والی ایک طالبہ ‘لارا القاسم’ کو بن گوریون ہوئی اڈے پر اس شبے میں روک لیا کہ وہ امریکا میں اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے جاری تحریک ‘بی ڈی ایس’ میں سرگرم رہی ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کو معلوم ہے کہ لارا القاسم عبرانی یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور اس کے پاس اسرائیلی قونصل خانے کی طرف سے جاری کردہ ویزہ بھی تھا۔ اس کے باوجود اسے روکا گیا اور اسرائیل میں داخل ہونے پر پوچھ تاچھ کی گئی۔
ویب سائیٹ ‘عربی 21’ کے مطابق 22 سالہ لارا القاسم فلسطینی نژاد امریکی ہیں۔ وہ ابھی تک ہوائی اڈے پر قائم ایک پولیس حراستی مرکز میں قید ہیں اور انہیں ملک بدر کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔
ادھر امریکا کی فلوریڈا یونیورسٹی کے پروفیسر تامیر شورک کا کہنا ہے کہ انہیںمعلوم ہوا ہے کہ اسرائیل نے لارا القاسم کو بے دخل کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اسرائیل کا دعویٰہے کہ لارا صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی عالمی تحریک ‘ بی ڈی ایس’ میں سرگرم رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لارا بے قصور ہے اور اس کا ‘بی ڈی ایس’ تحریک کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والوں میںہوتی تو اسرائیلی یونیورسٹی میں داخلہ نہ لیتی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی حکام نے حالیہ کچھ عرصے کے دوران ایسے کئی کارکنوں کو گرفتار کرنے کے بعد ملک بدر کیا جن کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں سرگرم رہےہیں۔
عبرانی ٹی وی 13 کے مطابق انسداد بائیکاٹ سے متعلق اسرائیلی قانون "بی ڈی ایس” تحریک کے کارکنوں کو ملک میں داخلے سے روکنے کی اجازت دیتا ہے۔ ٹی وی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزرارت خارجہ نے ایک لمبی چوڑی فہرست بنا رکھی ہے جس میں اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے کارکن شامل ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر یہ افراد اسرائیل میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔