فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم کردہ اقوام متحدہ کی ‘ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’ اونروا نے مقبوضہ بیت المقدس میں ایجنسی کے امدادی آپریشن بند کرنے اور امدادی ادارے کےکارکنوں کو نکال باہر کرنے کے اعلان کی شدید مذمت کی ہے۔ اونروا کا کہنا ہے کہ القدس میں ایجنسی کے امدادی آپریشن بند کرنے کا اسرائیلی فیصلہ سوچی سمجھی انتقامی کارروائی سمجھا جائے گا۔
"اونروا” کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امدادی ادارے کے بیت المقدس میں موجود مراکز بند کرنا اور اس کے امدادی پروگرامات ختم کرنے کا اسرائیلی اعلان باعث تشویش ہے۔القدس میں اسرائیلی بلدیہ کی کا اعلان انتقامی سوچ کا مظہر ہے۔
بیان میں مزید کہا گیاہے کہ بیت المقدس میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے "اونروا”کے تمام پروجیکٹ معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے انہیں بند کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ایسا کیا گیا تو اس کےنتیجے میں ہزاروں افراد متاثر ہوں گے۔
خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی حکومت نے کہا تھا کہ وہ القدس میں موجود "اونروا” کے تمام پروجیکٹ بند کرتے ہوئے امدادی ایجنسی کے کارکنوں کو نکال باہر کرنے کی تیاری کررہی ہے۔
اسرائیل کے نیوز نیٹ ورک اور ٹی وی چینل 2 کی رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں اسرائیلی بلدیہ نے ‘اونروا’ کے زیراہتمام چلنے والے تمام ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان میں اسکول، اسپتال، بچوں کی بہبود کے مراکز اور کئی دوسرے ادارے شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے ‘شعفاط’ کا "پناہ گزین” کا اسٹیٹس ختم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔
ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیت المقدس میں ‘اونروا’ کے امدادی آپریشن کی بندش کا پلان امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امدادی ایجنسی کی امداد بند کرنے کے اعلان کا حصہ ہے۔ امریکی اعلان اور اقدام نے ‘اونروا’ کے پروگرامات بند کرنے کے لیے صہیونی ریاست کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ بیت المقدس میں ’اونروا’ کا امدادی آپریشن بند کرنے میں امریکا کی معاونت حاصل ہے اور اسرائیلی حکومت عن قریب اس پلان کو حتمی شکل دے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بیت المقدس میں ‘اونروا’ کے امدادی پروگرام کی بندش کے نتیجے میں 1200 طلباء براہ راست متاثر ہوں گے۔ ان میں شعفاط پناہ گزین کیمپ میں قائم بوائز اور گرلز اسکولوں کے 150 بچے، وادی الجوز کے گرلز اسکول کے ، سلوان میں پرائمری بوائز اسکول کے 100، صور باھر میں دو اسکولوں کے 350 بچے شامل ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت نے فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانے والی امداد رواں سال بند کرنے کا اعلان کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں فلسطینی پناہ گزینوں کو دی جانے والی 325 ملین ڈالر میں سے 65 ملین امداد کم کی جب کہ بعد میں تمام امداد بند کرتےہوئے امدادی ایجنسی ہی کو ختم کرنے کافیصلہ کیا گیا۔
"اونروا” کا قیام سنہ 1948ء میں فلسطین میں اسرائیلی ریاست کےقیام اور ہزاروں فلسطینیوں کو طاقت کے بل پران کے گھروں سے نکالے جانے کے بعد عمل میں لایا گیا تھا۔ قیام اسرائیل کے بعد فلسطین سے 50 لاکھ سے زاید فلسطینیوں کو بے گھر کیا گیا۔ یہ فلسطینی پناہ گزین اندرون ملک کے ساتھ اردن، شام، لبنان، غرب اردن اور غزہ کی پٹی میں پناہ گزین کیمپوں میں عارضی طورپر رہائش پذیر ہیں۔ ان کی تعلیم، صحت، سماجی بہبود، بنیادی ڈھانچے، تحفظ اور دیگر ضروریات کی فراہمی "اونروا” کےذمہ ہے۔