جمعه 15/نوامبر/2024

‘نہ زندہ چھوڑیں اور نہ مرنے دیں’ غزہ بارے اسرائیلی پالیسی!

جمعرات 4-اکتوبر-2018

صہیونی ریاست دنیا کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ غزہ کی پٹی کےعلاقے پر کسی قسم کی پابندیاں مسلط نہیں کی گئی ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ صہیونی ریاست تجارتی گذرگاہوں کے کھلے رکھنے کے ایام کو شمار کر کے یہ باور کرانے کی کوشش کرہی ہے کہ غزہ میں تجارتی آمد ورفت آزادانہ جاری ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ غزہ کی پٹی کی تجارتی گذرگاہوں پرہونے والی تجارتی سرگرمیاں عالمی ادارہ برائے تجارت کے تناسب سے 1 فی صد سے بھی کم ہے۔

یہی وجہ ہے کہ صہیونی ریاست سنہ 2006ء میں غزہ کی پٹی میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد غزہ کے عوام کے بارے میں ‘نہ زندہ رہنے دو اورنہ مرنے دو’ کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

خطرناک اثرات

غزہ کی پٹی پراسرائیلی ریاست کی مسلط کردہ ناکہ بندی کو مسلسل 12 سال بیت گئے ہیں۔ اس طویل عرصے میں صہیونی ریاست نے غزہ کا محاصرہ شدید سے شدید ترکرنے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ کبھی غزہ کو فراہم کردہ ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں اضافہ کیا جاتا ہے اور کبھی سرے سےغزہ کی سرحدی اور تجارتی گذرگاہوں پر آمد ورفت ہی کو بند کردیا جاتا ہے۔

فلسطین مرکز برائے انسانی حقوق کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ماہ اگست کےدوران قابض صہیونی ریاست نے غزہ پر پابندیوں میں مزید سختی کردی۔ سوائے ضروری انسانی سامان جس میں خوراک اور ادویہ شامل ہیں باقی تمام طرح کی اشیاء کی غزہ کو سپلائی بند کردی گئی۔

انسانی حقوق گروپ کے مطابق صہیونی حکام نے غزہ کو ہرطرح کے سامان تجارت کی درآمد وبرآمد اور اشیاء کی مارکیٹنگ پرپابندی لگا دی۔

غزہ کی پٹی پر پابندیوں میں سختی، اکلوتی گذرگاہ ‘کرم ابو سالم’کی بندش، ایندھن اور دیگر بنیادی ضرورت کے سامان پر پابند نے غزہ میں انسانی، اقتصادی اورسماجی بحران میں مزید اضافہ کیا۔ صہیونی حکام کے اس ظالمانہ فیصلے سے غزہ کے دوملین عوام کی زندگیوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔

زندگی کی بقاء کی جنگ

فلسطینی تجزیہ نگار اسامہ نوفل غزہ کی پٹی کی ابتر اقتصادی صورت حال کے حوالے سے کہتےہیں کہ صہیونی ریاست غزہ کے عوام کو زندگی گذارنے کے ادنیٰ ترین درجے پر رکھنا چاہتی ہے جبکہ فلسطینی عوام زندگی کی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ غزہ پر پابندیاں صہییونی ریاست کے اس مجرمانہ اور غیر انسانی طرز عمل کی عکاسی کرتی ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں کو فراہم کردہ ممنوعہ اشیاء کی فہرست میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کاکہنا تھا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے غزہ کے عوام کی طرف سے دوغلی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ قابض صہیونی ریاست کی طرف سے غزہ کو ادنیٰ درجے کے حقوق فراہم کرنے کی پالیسی عمل پیرا ہے۔ ایک طرف غزہ کی تجارتی گذرگاہئیں کھلی رکھی جاتی ہیں مگر ان گذرگاہوں سے غزہ کو سامان کی ترسیل اور سپلائی پر پابندی عاید کی جاتی ہے۔ یہ صہیونی ریاست کی دوغلی پالیسی ہے۔

فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی پالیسی

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے گرد گھیرا تنگ کرنےکی سازشوں میں فلسطینی اتھارٹی بھی پیش پیش ہے۔ سنہ 2015ء میں غزہ کی پٹی کو روزانہ 700 ٹرک سامان ارسال کیا جاتا تھا اور اب یہ تعداد 300 ہوگئی ہے

فلسطینی تجزیہ نگار اسامہ نوفل نے کہاکہ غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے پابندیوں کے نفاذ کے نتیجے میں بیرون ملک سے سامان کی غزہ کو سپلائی میں غیرمعمولی کمی آئی۔ فلسطینی اتھارٹی کی انتقامی سیاست نے بھی غزہ کی تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

نوفل کا کہنا ہے کہ غزہ کی برآمدات صرف 4٪ تک محدود ہوگئی ہیں۔ یہ خطرناک اعدادو شمار ہیں جو غزہ کی  تجارت کے خطرناک درجے کا اظہار کرتے ہیں۔ سنہ 2015ء میں غزہ کو تجارتی سامان کی ترسیل 15 فی صد تھی اور اب کم ہو کر صرف چار فی صد رہ گئی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی