فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی میں 18 مارچ 2018ء کو ’یوم الارض‘ کے موقع پر ایک نئی تحریک کا آغاز ہوا۔ مقامی سطح پر اس تحریک کو’حق واپسی اور انسداد ناکہ بندی مارچ‘ کا نام دیا گیا۔
اس تحریک کے دو اہم ترین مقاصد اور مطالبات ہیں۔ پہلا مطالبہ سنہ 1948ء اور اس کے بعد سے صہیونی ریاست کے جبر کے ذریعے نکالے گئے فلسطینیوں کو واپس ان کے علاقوں آباد ہونے کا موقع دینا اورغزہ کی پٹی پر اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ پابندیوں کو ختم کرنا ہے۔
مشرقی اور شمالی غزہ میں ہونے والے روزانہ کی بنیاد پران مظاہروں کو طاقت کے ذریعے کچلے کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں اب تک 200 سے زاید فلسطینی شہید اور 21 ہزار سے زاید زخمی ہوچکے ہیں۔
طاقت کےاستعمال، وحشت اور بربریت کا مظاہرہ کرنے کے باوجود فلسطینی پورے قدم اور عزم کے ساتھ صہیونی دشمن کے سامنے کھڑے ہیں۔ سینے پر گولیاں کھا کر بھی’حق واپسی‘ اور انسداد ناکہ بندی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ دوسری طرف دشمن تمام تر وحشت اور بربریت کے باوجود فلسطینیوں کے عزم کو توڑنے اور انہیں اپنے سامنے جھکنے پرمجبور نہیں کرسکا ہے۔
فلسطینی قوم نے آزادی اور دیگر حقوق کے لیے چھ ماہ میں جو قربانی دی ہے وہ ماضی کی تحریکوں کے مقابلے میں زیادہ خونی ثابت ہوئی۔ چھ ماہ میں دو سو فلسطینیوں کی شہادت اور ہزاروں کا زخمی اور معذور ہونا معمولی قیمت نہیں۔ نصف برس کے عرصے کی اس تحریک نے کئی اہم سنگ میل طے کیے ہیں مگر کیا وہ لمحہ قریب آگیا ہے جس کا انتظار تھا؟ کیا غزہ آتش فشاں بن کر پھٹنے والا ہے اور لمحہ صفر تک آ پہنچا ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین نے انہی سوالات کے جواب دیے ہیں۔ 30 مارچ سے جاری تحریک کے دوران اب تک 202 فلسطینی مظاہرین شہید،21 ہزار 400 زخمی ہوچکے ہیں۔
تحریک کے ٹھیک چھ ماہ بعد 28 اپریل کو اسرائیلی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرکے 7 فلسطینی شہید اور پانچ سے زاید کو زخمی زخمی کردیا۔ شہداء میں 2 بچے بھی شامل ہیں۔ اس سے قبل 14مئی کو اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کا وحشیانہ قتل عام کیا جس کے نتیجے میں 70 فلسطینی مظاہرین شہید ہوگئے تھے۔
غزہ محاذ پر گرما گرمی
غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر جاری مظاہروں، آتش گیر غباروں کے پھینکے جانے۔ رات کی ریلیوں، سمندر میں مظاہروں،زیکیم فوجی اڈے کے قریب سے بحری ناکہ بندی توڑنے کی بار بار کوششوں اور چوبیس گھنٹے نقاط تماس پر فلسطینیوں کے مظاہروں نے غزہ کو اسرائیلی میڈیا کا اہم موضوع بنا دیا۔ صہیونی ذرائع ابلاغ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ فلسطینی تحریک نے غزہ کے محاذ پر گرما گرمی پیدا کردی ہے۔
دو روز پیشتر عبرانی اخبار ’ہارٹزش‘ نے لکھا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی سرحد پر [اسلامی تحریک مزاحمت ] حماس کی طرف سے چھیڑی گئی جنگ کو طول نہیں پکڑنے دے گی۔ غزہ کی مشرقی سرحد پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ خطرناک ہے اور اسرائیلی فوج اسے مزید خطرہ بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔
ادھر اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے ایک بیان میں کہا کہ فوج کسی بھی سیناریو سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی کی سرحد پر مظاہروں کو اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بننے دیں گے۔ ساتھ ہی انہوں نے غزہ کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی پالیسی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔
عبرانی اخبار ’معاریو‘ کے مطابق نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے نیتن یاھو کاکہنا تھا کہ میں پوری سنجیدگی سے کہہ رہا ہوں کہ غزہ کی پٹی میں کسی بھی پس منظر سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں۔
عبرانی اخبار نے اسرائیل کے ایک سیاسی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ وزیراعظم نیتن یاھو نے نیویارک میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے صدر السیسی پر زور دیا کہ وہ غزہ میں حالات کو پرسکون بنانے کے لیے اقدامات کریں اور حالات کو آتش فشاں بن کر پھٹنے سے روکیں۔
نیتن یاھو کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں موجودہ بحران اقتصادی اور معاشی مشکلات کا نتیجہ ہے۔ اگر غزہ میں نوجوانوں میں معاشی بحران ختم ہوجائے تو غزہ میں حالات کو پرسکون بنایا جاسکتا ہے مگر محمود عباس نے غزہ کا سکون چھین رکھا ہے۔
اخباری رپورٹ کے مطابق نیتن یاھو نے غزہ میں کشیدگی اور شورش کی ذمہ داری محمود عباس پر عاید کی اور کہا کہ غزہ میں تشدد میں اضافہ محمود عباس کی پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔
عبرانی نیوز ویب سائیٹ ’واللا‘ کے مطابق نیتن یاھو نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے محمود عباس کو اپنی ذمہ داریوں سے فرار نہیں ہونے دیں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ غزہ بم کی طرح پھٹ جائے مگر ہم ایسا نہیں چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں بحران کی اصل ذمہ دار حماس ہے مگر صدر عباس نے غزہ کی املاک روک پر کاری ضرب لگائی ہے۔
سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 کے مطابق صہیونی حکومت کے لیے اس وقت سب سے زیادہ مشکل مسئلہ صرف غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے پرتشدد مظاہرے ہیں، ان کی وجہ سے صہیونی حکومت سخت پریشانی کے عالم میں ہے۔
عبرانی ٹی وی کے مطابق فوجی ادارے میں غزہ کی پٹی کے مظاہرے بڑی تشویش کا باعث ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران غزہ کی پٹی میں پیدا ہونے والی کشیدگی نے صورت حال کو فوجی انداز میں حل کرنے کے زیادہ مواقع پیدا کیے بالخصوص غزہ کی سرحد پر احتجاج میں شدت نے صہیونی فوج کو مسئلے کے فوجی حل پرغور کے لیے مجبور کیا۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے بھی خبردار کیا گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اگر فلسطینیوں کا احتجاج ٹھنڈا نہ ہوا اور اس کا کوئی جاندارحل نہ نکالا جاسکا تو اگلے مرحلے میں جنگ بندی کے مواقع مزید کم ہوجائیں گے۔
اسرائیلی ٹی وی چینل کے مطابق غزہ کی پٹی سے کوئی راٹ فائر نہ کیا جانا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ حماس اور اسلامی جہاد اسرائیل کے ساتھ طویل جنگ بندی میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
عبرانی میڈیا کے مطابق حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ نے گذشتہ ہفتے کے روز غزہ کی پٹی سے سمندر کی طرف سات راکٹ داغے۔ یہ راکٹ صرف تجرباتی نوعیت کے تھے جس کا مقصد حماس کے عسکری ونگ کی دفاعی صلاحیت کو جانچنا تھا۔
وقت کی ضرورت
اسرائیل کی ریزرو فوج کے جنرل رونین ایٹزیک نے اخبار’یسرائیل ھیوم‘ میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائی کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر غزہ کی پٹی میں فوجی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کا آغاز اسرائیل کی طرف سے کیا جانا چاہیے اور یہ اچانک ہو تاکہ دشمن کو تیاری کا موقع نہ مل سکے۔ اب کی بار حماس کے خلاف کارروائی جاندار اور موثر ہونےچاہیے تاکہ غزہ کی پٹی میں حماس کے وجود کو ختم کردیا جائے۔
تاہم اسرائیل کےسیاسی اور عسکری حلقوں میں بعض لوگ جنگ کےمخالف ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی ’اونروا‘ کی امداد کی بندش بھی غزہ کے عوام کا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں غزہ کی پٹی پر 12 سال سے مسلط کردہ ناکہ بندی کے خاتمے کا بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے۔