فلسطینی اتھارٹی کےقیام کے بعد اسرائیل اور اتھارٹی کے درمیان تعلقات مختلف شکلوں میں ترتیب پاتے اور آگے بڑھتے رہے۔ دونوں کے درمیان کبھی بالواسطہ اور کبھی براہ راست بات چیت ہوتی رہی۔ مذاکراتی گیم کے دوران فلسطینی اتھارٹی کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کے غاصب ریاست کے ساتھ نہ تو سیکیورٹی تعلقات قائم ہیں، نہ اقتصادی اور نہ ہی کسی اور شکل میں مگرزمینی حقیقت کچھ اور کہانی کہہ رہی ہے۔
حال ہی میں فرانس میں ایک انٹرویو میں صدر عباس نے کہا کہ اگر اسرائیل یہودی آبادکاری جاری رکھتا ہے تو ہم اس کے ساتھ سیکیورٹی تعاون ختم کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ بات چیت بحال کرنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ فلسطینی تجزیہ نگار فلسطینی اتھارٹی کی اس پالیسی کو ’سیاسی بگاڑ کی کیفیت‘ قرار دے رہے ہیں۔
محمود عباس نے مزید کہا کہ انہوں نے 21 جولائی 2017ء کو مسجد اقصیٰ پر یہودیوں اور اسرائیلی فوج کی یلغار کے بعد صہیونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے تعلقات ختم کردیے تھے۔ تاہم سیکیورٹی سےمتعلق شعبے میں اسرائیل کے ساتھ تعاون بدستور جاری ہے۔
سیاسی بگاڑ
فلسطینی تجزیہ نگار حسام الدجنی نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کےاعلانات اور اقدامات، بیانات اور عملی کارروائیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فلسطینی صدر عباس اور تنظیم آزادی فلسطین کے درمیان سیاسی انتشار اور بگاڑ کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور ایگزیکٹو کمیٹی الگ الگ چل رہی ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین کے فیصلوں پرعمل درآمد کے بجائے ان سے کھلم کھلا انحراف کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوسلو معاہدے اور پیرس میں ہونے والے اقتصادی سمجھوتے نے فلسطینی اتھارٹی کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو سیکیورٹی تعاون فراہم کرنے پرمجبور ہوگئی۔ اگر فلسطینی اتھارٹی سیکیورٹی تعاون ختم کرتی ہے تو اس کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے اور اگر پیریس اقتصادی معاہدہ ٹوٹتا ہے تو فلسطینی اتھارٹی ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدر عباس کی طرف سے ’اوسلو‘ معاہدے کو ناکام ہونے کا اعلان ناممکن ہے۔
گھسے پٹے نعرے
اسلامی جہاد کے رہ نما احمد المدلل نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر عباس کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ اسرائیل سے رابطے ختم کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حقیقی معنوں میں صدر عباس دشمن کے چنگل سے باہر نکلنے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان واپس لینے کی جرات نہیں رکھتے۔
اسلامی جہاد کے رہ نما کا کہنا تھا کہ صدر عباس جب اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کی بات کرتے ہیں۔ وہ نیتن یاھو اور دیگر صہیونی عہدیداروں سے ملتے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ابھی تک اسرائیل سے سیکیورٹی تعاون بھی جاری رکھا ہوا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار مصطفیٰ الصواف فلسطینی اتھارٹی کے درمیان تعلقات کے مکمل خاتمے کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح کی طرف سے اسرائیل کے خلاف جو نعرے لگائے جاتے اور جواعلانات کیے جاتے ہیں وہ گھسے پٹے ہیں۔