ایک ماہ قبل اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمان] نے ایک متنازع قانون منظور کیا جس کی رو سے صہیونی ریاست کو دنیا بھر کے یہودیوں کا قومی وطن قرار دیا گیا۔ اس قانون کی رو سے اسرائیل میں بسنے والے غیر یہودیوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کےانسانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھنے کی راہ ہموار ہو گئی۔
یہودی قومیت کے سیاہ قانون کی منظوری کے بعد فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے جرائم میں اضافہ ہوگیا۔ فلسطینی قوم کو اس قانون کی منظوری کے بعد سخت خوف لاحق ہے۔ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسنے والے فلسطینی عرب شہری پہلے ہی صہیونی ریاست کے امتیازی سلوک کا سامنا کررہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہودی قومیت کا قانون فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کو آئینی جواز دینے کی مجرمانہ کوشش ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے قضیہ فلسطین پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نہ صرف اندرون فلسطین بلکہ ارض فلسطین کے کونے کونےمیں بسنے والے فلسطینی اس قانون سے متاثر ہوں گے۔
نسلی امتیاز کو جواز فراہم کرنے کی کوشش
اسلامی تحریک کے رکن توفیق محمد کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا قومیت کا قانون جسے ’یہودی قومیت‘ کا قانون بھی کہا جاتا ہے کے فلسطینی قوم پر مجموعی طورپر گہرے اور منفی اثرات مرتب کرے گا۔اس کے منفی اثرات قضیہ فلسطین کو بھی متاثر کریں گے۔
یہ دراصل یہودی قومیت کے قانون ہی کا شاخسانہ ہے کہ صہیونی ریاست نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بنانے کے لیے امریکا کو استعمال کیا۔ موجودہ امریکی انتظامیہ نے یہودی قومیت کےقانون کے عملی نفاذ میں صہیونی ریاست کی بھرپور مدد کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کے ادارے ’اونروا‘ کی مالی امداد بند کرنا، فلسطینی پناہ گزینوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش ہے۔ یہ بھی فلسطینی قوم کے خلاف ایک گہری سازش ہے جس کا مقصد بالآخر قضیہ فلسطین کو مکمل طورپر ختم کرنا ہے۔
فلسطینی رہ نماء کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کی روز مرہ کی بنیاد پر جاری کارروائیاں اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل نے یہودی قومیت کے قانون کو عملا نافذ کردیا ہے۔ حال ہی میں شفا عمرو شہر میں یہودی شرپسندوں نے تین فلسطینی ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ بالکل بے گناہ تھے مگر اس کے باوجود یہودی فوجیوں اور پولیس نے بھی انہی کو تشدد نشانہ بنا کر قصور وار قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم کی فہرست طویل ہے۔ اندرون فلسطین میں سنہ 2000ء کے بعد سے شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ کے بعد 70 فلسطینیوں کو اسرائیلی پولیس نے گولیاں مار کر بے رحمی کے ساتھ شہید کردیا۔
فلسطینیوں کی مشکلات
فلسطینی دانشور اسرائیلی امور کے ماہر فتحی بوزیہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اندرون فلسطین میں بسنے والے فلسطینیوں کی مشکلات بے پناہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑی مشکل اور مسئلہ فلسطینیوں کے خلاف پرستی ہے۔ فلسطینی عرب باشندوں کو نسلی امتیاز کا سامنا ہے۔ انہیں انسانی مساوات، بنیادی حقوق، تعلیم، صحت، سماجی انصاف میں سے کوئی حق نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز معاصر تاریخ کا بدترین ظلم ہے۔
یہودی قومیت کے قانون کی منظوری نے صہیونی ریاست کے قبیح چہرے کو بے نقاب کردیا۔
فلسطینی دانشور کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے انتقامی اقدامات ، ان کی ٹارگٹ کلنگ اوران کے بنیادی حقوق کی پامالیاں صہیونی ریاست خود صہیونی ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔