چهارشنبه 30/آوریل/2025

’صحن براق‘ میں توسیع اسرائیل کا گھناؤنا منصوبہ!

بدھ 12-ستمبر-2018

اسرائیلی ریاست اور اس کے تمام ذیلی سیاسی، سیکیورٹی، فوجی اور انٹیلی جنس ادارے مسجد اقصیٰ پرحملوں کے منصوبوں کو دن رات آگے بڑھانے کے لیے  سرگرم اور قبلہ اول کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے سرگرداں ہیں۔

صہیونی ریاست کے ان گنت خطرناک منصوبوں میں  ایک منصوبہ ’صحن براق کی توسیع‘ کا بھی ہے۔ اس منصوبے کی منظوری حال ہی میں اسرائیلی بلدیہ نے دی اور وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے دفتر سے اس کی توثیق کی گئی۔ منصوبے کے تحت دیوار براق کی مغربی سمت میں اس کے صحن کو مزید وسیع کیا جائے گا تاکہ وہاں پر زیادہ سے زیادہ تعداد میں یہودی جمع ہو کر تلمودی تعلیمات کے مطابق رسومات ادا کرسکیں۔

فلسطینی محکمہ اوقاف کے ڈائریکٹر آثار قدیمہ و سیاحت یوسف النتشہ نے صحن براق کی توسیعی منصوبے کوسب سے بڑا اور انتہائی خطرناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پروجیکٹ پچھلے پانچ سال سے اسرائیلی وزیراعظم کے دفترمیں زیرغور رہا ہے۔

قبلہ اول کی تقسیم کا سازشی منصوبہ

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے یوسف النشتہ نے کہا کہ صحن براق کی توسیع کا منصوبہ اپنے طورپر خطرناک تو ہے ہی مگر یہ منصوبہ دراصل قبلہ اول کی تقسیم کا ایک سازشی منصوبہ ہے۔ اس طرح کے کئی اور منصوبے جن میں ’شٹراوس‘ بلڈنگ، ’بیت ھلفا‘ اور ’ بیت الجوھر‘ جیسے منصوبے پہلے ہی مکمل کیے جا چکے ہیں۔ باب المغاربہ [مراکشی دروازہ] کے باہراموی محلات میں ’گیفاتی‘ نامی ایک وسیع وعریض منصوبہ پہلے ہی مکمل کیا جا چکا ہے۔

یوسف النتشہ کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست نام نہاد توسیعی منصوبوں کی آڑقبلہ اول کا نقشہ اپنی مرضی کے مطابق بدلنا چاہتی ہے۔ صحن براق کی توسیع کا  منصوبہ دو مراحل میں مکمل ہوگا۔ یہ انتہائی خطرناک اور مشکل ترین منصوبہ ہے۔ پہلا مرحلہ باب المغاربہ سے متصل اور دیوار براق کی شمالی سمت میں ہوگا۔ اس جگہ مغربی سرنگ اور التنکزیہ اسکول بھی واقع ہیں۔ پہلے سے وہاں کار پارکنگ، ہوٹل، بسوں کا اسٹینڈ، مواصلاتی مرکز واقع ہیں۔

یوسف النتشہ کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کا صحن براق کا توسیعی منصوبہ مقدس مقام کے اسلامی اور عرب تشخص کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔

تاریخی آثار کی باقیات

ایک سوال کے جواب میں یوسف النتشہ کا کہنا تھاکہ باب المغاربہ کے قریب صحن براق کے اطراف میں کئی تاریخی مقامات ہیں۔ صحن براق ان کے مرکز میں ہے۔ یہ جگہ تاریخی آثار اور پرانی عمارتوں کی باقیات سے بھری ہوئی ہے۔

انہی تاریخی مقامات میں رومانوی دور کی عمارتیں، عرب اور اسلامی ادوار کے تعمیرات، جن میں اموی تہذیب کے کھنڈرات مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی گواہی دیتےہیں۔ اموی دور میں القدس کی تہذیب وتمدن کی عمارتیں، ایوبی دور آثار قدیمہ، الافضلیہ اسکول، المغارنہ کالونی اور کئی دوسری جگہیں مسجد اقصیٰ کے مسلمانوں کی ملکیت ہونے اور مقام براق کے قبلہ اول کاحصہ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی