سعودی عرب کی ایک فوج داری عدالت نے زیرحراست ممتاز عالم دین الشیخ سلمان العودہ کو حکومت پر تنقید کی پاداش میں سزائے موت دینے کی سفارش کی ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ سلمان العودہ پر دہشت گردی سے تعلق کے ساتھ 37 الزامات کے تحت فرد جرم عاید کی ہے۔ عدالت نے ’سزا‘ کے طورپر ان کا سر قلم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
دوسری جانب امریکا اور بعض دوسرے ملکوں میں سلمان العودہ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر زور دار مہم جاری ہے۔ امریکا میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے ’سلمان العودہ دہشت گرد نہیں ہیش ٹیگ‘ کے عنوان سے ٹوئٹر پر مہم شروع کی ہے جس میں شہری بڑھ چڑھ کر ان کی حمایت کررہے ہیں۔
ادھر سعودی عالم دین الشیخ سلمان العودہ کے صاحبزادے عبداللہ العودہ نے انکشاف کیا ہے کہ اس کےوالد کو ایک حراستی مرکز میں غیرانسانی ماحول میں رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے والد کو جس کیفیت اور ماحول میں رکھا گیا ہے وہ صدمے اور افسوس کا باعث ہے۔
امریکا کی ’بل‘ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر العودہ نے ٹوئٹر پر پوسٹ بیان میں کہا کہ ان کے والد بلند فشار خون کا شکار ہیں۔ انہیں انتہائی نا مناسب اور غیرانسانی ماحول میں ریاض کی ایک بدنام زمانہ جیل میں ڈالا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے والد کو اچانک کچھ عرصہ قبل ریاض میں ان کی رہائش گاہ سے اٹھا لیا گیا تھا۔ بعد میں جیل کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ ان کے والد کے خلاف خفیہ مقدمہ چل رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب کے ممتاز عالم دین الشیخ سلمان العودہ کو سعودی پولیس نے ستمبر 2017ء کو حراست میں لیا۔ ان کے ساتھ بیس دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا تھا۔ ان میں بیشتر علماء تھے۔ ان کی گرفتاری اس وقت عمل میں لائی گئی تھی جب انہوں نے امیر قطر الشیخ حمد بن آل ثانی اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے درمیان تعلقات کی بہتری کی دعا کی تھیں۔ وہ متعدد بار سعودی عرب کی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہے ہیں۔