جمعه 15/نوامبر/2024

ایک بیان نے محمود عباس کی ’منافقت‘ کا پردہ چاک کر دیا!

بدھ 5-ستمبر-2018

فلسطینی اتھارٹی کے ذرائع ابلاغ  میں بیانات اور عملی اقدامات میں کھلم کھلا تضاد ہے۔ وہ ایک طرف بیانات دیتے وقت امریکا کی طرف سے بدنام زمانہ ’صدی کی ڈیل‘ نامی سازش کی مخالفت کرتے ہیں مگر عملی اقدامات میں صدر عباس اور فلسطینی اتھارٹی صہیونی ویژن کو آگے بڑھاتی دکھائی دیتی ہے۔

حال ہی میں اسرائیلی دانشوروں اور صحافیوں کے ایک گروپ نے رام اللہ میں صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں صدرعباس نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ حیران کن ہرگز نہیں کیونکہ صدر عباس نے جو بیان دیا ہے وہ انہی پرعمل درآمد کرتے چلے آر ہے ہیں۔ یہ بیان فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔

اردن سے کنفیڈریشن

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق محمود عباس نے اسرائیلی وفد کے ساتھ بات چیت میں جن چار نکات کا تذکرہ کیا، وہ ان کی پالیسی کا حصہ ہے۔ دراصل صدر محمود عباس اپنے اقتدار کی بقاء اور دفاع کے لیے امریکا اور اسرائیل کی اطاعت گذاری کی پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔ انہوں نے فلسطینی قوم کو درپیش مسائل سے ہمیشہ صرف نظر کر کے اسرائیل اور امریکا کی خوش نودی کی بات کی۔

فلسطینی تجزیہ نگار صلاح الدین العواودہ نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محمود عباس کے پاس ایسی اور کوئی چیز نہیں جس کی مد سے وہ اپنے اقتدار کو طول دے سکیں۔ وہ ہرقیمت پر اپنے اقتدار کا دفاع چاہتےہیں چاہے انہیں فلسطینی قوم کی آزادی کےدیرینہ خواب سے بھی دست بردار ہونا پڑے۔ یہاں تک کہ وہ اسرائیل کے سپاہی  ہی کیوں نہ بن جائیں۔ انہیں تاریخ تنظیم آزادی فلسطین کا آخری سربراہ ہی کیوں نہ لکھے۔ وہ قضیہ فلسطین کو ختم ہی کیوں نہ کریں۔ وہ اپنے اقتدار کے حصول کے لیے غیروں کے ایجنڈے میں رنگ بھرنے سے نہیں کتراتے۔

ایک سوال کے جواب میں العواودہ نے کہا کہ محمود عباس نے اردن اور اسرائیل کے ساتھ کنفیڈریشن کے قیام کا اعلان کرکے ایک بار پھر اپنے سیاسی اور اخلاقی افلاس کا ثبوت پیش کردیا ہے۔ وہ مسلسل صہیونی ریاست کے قبضے تلے رہنا چاہتےہیں۔ دوسرے الفاظ میں انہوں نے فلسطینی صہیونی ریاست کی خوش نودی کے لیے فلسطینی قوم کی آزادی کے خواب کا بھی سودا کیا۔

محمود عباس نے اسرائیلی وفد سے ملاقات میں کہا کہ انہوں نے امریکا کی طرف سےاردن کے ساتھ کنفیڈریشن کی تجویز اس شرط پر قبول کرلی ہے اگر اس میں اسرائیل اور اردن دونوں  متفق ہوں۔

ماہانہ ملاقات اور سیکیورٹی تعاون

اسرائیلی تنظیم ’پیس موومنٹ‘ سے بات کرتے ہوئے صدر عباس نے اسرائیلیوں میں اپنی ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ صلاح الدین العواودہ کا کہنا ہے کہ محمود عباس نے جب یہ کہا کہ ان کے اسرائیل کے داخلی سلامتی کے خفیہ ادارے ‘شاباک‘ کے ساتھ رابطے ہیں اور ماہانہ کی بنیاد پر ان کی ملاقاتیں بھی ہوتیں تو یہ دراصل صہیونیوں کے دلوں میں اپنے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی سیکیورٹی ادارے ’شاباک‘ کے ساتھ قانون کے نفاذ میں 99 فی صد تعاون کرتے ہیں۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کا بیان ایک سوالیہ نشان ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا محمود عباس ’شاباک‘ کے ساتھ کن امور میں تعاون کررہےہیں؟ کیا وہ اسرائیلی قبضے میں غاصب ایجنسی کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ فلسطین میں یہودی آبادکاری کے لیے تعاون کرتے ہیں۔ القدس کو یہودیانے کے لیے تعاون کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کی گرفتاریوں، فلسطینی اراضی پر غاصبانہ قبضے، فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری، حق واپسی یا متبادل وطن کی سازش میں دشمن کے ساتھ تعاون اور مدد کررہے ہیں؟۔

تبادلہ اراضی کا خطرناک فارمولا

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ وضح طورپر ’صدی کی ڈیل‘ کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ اعلانیہ اس سازش کی مخالفت یا مذمت تو کرتے ہیں مگر حقیقت میں صدی کی ڈیل کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔

فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور سیاسی تجزیہ نگار حسن خریشہ نے کہا کہ محمود عباس کا تبادلہ اراضی کا فارمولا خطرناک ہے مگر صدرعباس اسرائیلیوں کو راضی کرنے کے لیے تبادلہ اراضی کا فارمولہ پیش کررہےہیں۔

سیکیورٹی ملاقاتیں

حسن خریشہ نے مرکزاطلاعات سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محمود عباس نے اسرائیلی وفد سےملاقات میں انکشاف کیا کہ ان کے اسرائیل کے ساتھ بھرپور سیکیورٹی تعاون جاری ہیں۔ فلسطینی قوم نے اسرائیل کے ساتھ تعاون کو واضح اور کھلے انداز میں مسترد کردیا ہے مگر محمود عباس فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ وہ اسرائیلی فوجی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب صدر عباس نے صدی کی ڈیل کی مخالفت کی تو ان کے موقف کو پوری فلسطینی قوم نے سراہا۔ جب انہوں نے کہا کہ وہ امریکیوں سے بالواسطہ یا براہ راست ملاقاتیں نہیں کریں گے تو فلسطینی قوم نے اس کی حمایت کی مگر ان وہ یہ انکشاف کررہے ہیں کہ وہ امریکیوں اور اسرائیلیوں سے ملاقاتیں بھی کررہےہیں اور ان کے ساتھ بھرپور تعاون بھی کر رہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی