حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کو ’اس بار فلسطینی اتھارٹی کا کردار بہت اچھا رہا ہے، اس لیے اسے اس کا بدلہ بھی اچھا ہی ملے گا‘، تاہم انہوں نے اپنے اس بیان کی مزید تفصیل یا وضاحت نہیں کی۔ اس بیان کے تین روز بعد فلسطینی حیران رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی اتھارٹی کی 20 کروڑ ڈالر کی امداد بند کر دی ہے۔ یہ امداد مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے علاقے میں خرچ کی جانا تھی۔
امریکی حکومت کی طرف سے اس نوعیت کے متعدد اقدامات پہلے بھی کیے جاتے رہےہیں۔ جب سے ٹرمپ نے اقتدار ہاتھ میں لیا ہے اس کے بعد فلسطینیوں کے حقوق پر کئی بار ڈاکہ زنی کی گئی۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا۔ تل ابیب سےامریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا گیا، فلسطینیوں کی مالی امداد بند کی اور فلسطینی پناہ گزینوں کو ملنے والی امداد کو بھی محدود کردیا گیا۔
فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ
فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر حسن خریشہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا نے فلسطینیوں کے خلاف واضح انتقامی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ جالا جاتا ہے۔
خریشہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے فلسطینیوں کی مالی امداد میں کٹوتی اور حال ہی میں غرب اردب اور غزہ کے لیے ملنے والی امداد 20 کروڑ ڈالر ختم کرکے دوسرے علاقوں میں منتقل کرنا فلسطینیوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔
حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی انتقامی پالیسی کے خلاف فلسطینی قوم کو مل کر ایک اور جاندار موقف اختیار کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اور صدر عباس کی طرف سے صدی کی ڈیل کو مسترد کرنے اور امریکیوں سے ملاقات سے انکار مثبت اشارہ ہے۔ مگر صدر عباس کو تنہا نہیں بلکہ پوری قوم کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا۔
حسن خریشہ کا کہنا ہے کہ فلسطینی صدر کو چاہیے کہ وہ غزہ کی پٹی پر عاید کردہ پابندیوں کو فوری اٹھائیں اور غزہ کی پٹی میں جاری عوامی احتجاجی مظاہروں کو غرب اردن منتقل کیا جائے۔
فلسطینی معیشت پر اثرات
فلسطینی تجزیہ عمر شعبان نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر کی طرف سے فلسطینیوں کی امداد منجمد کیے جانے کے اعلان کے چند ماہ کے بعد اس کے فلسطینی معیشت پر اثرات مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے کئی اداروں نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ معاہدے ختم کردیے۔ فلسطینی اتھارٹی کی معاونت کرنے والی کمپنیوں نے بھی فلسطین میں اپنی سرگرمیاں معطل کردیں اور این جی اوز کے ساتھ امدادی اداروں کی طرف سے ملنے والا تعاون ختم کردیا گیاْ۔