چهارشنبه 30/آوریل/2025

میدان عمر بن خطاب کی تاریخ صہیونی سنگینوں کے نشانے پر!

جمعہ 24-اگست-2018

بیت المقدس کے ان گنت تاریخی اور اسلامی مقامات میں سے ایک تاریخی جگہ میدان عمربن الخطاب کےنام سے مشہور ہے۔ یہ میدان دراصل خلیفہ راشد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نسبت سے خاص جانی جاتی ہے۔

محل کے وقوع کے اعتبار سے بیت المقدس تاریخی دروازے باب الخلیل کے بالمقابل میدان عمر بن خطاب میں کئی تاریخی مقامات ہیں۔ کچھ پرانے ہوٹل اور گرجا گھر اس کی یاد گاریں ہیں مگر قلعہ القدس اس میدان کا تاریخی لینڈ مارک ہے مگر سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد اس پر صہیونی حکام کا قبضہ ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگار اور مورخ روبین ابو شمسیہ کا کہنا ہے کہ میدان عمر بن خطاب بیت المقدس کی مغربی سمت میں تعمیر کی گئی پرانی دیوار سے متصل باب الخلیل کے سامنے ہے۔ اس باب کو’باب یافا‘ بھی کہا جاتا ہے جو تاریخی پرانی دیوار کے پانچ دروازوں میں سے ایک ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو شمسیہ نے کہا کہ میدان عمر بن خطاب القدس کے تاریخی مقامات میں سے ایک ہے۔ تاریخی روایات کےمطابق خلیفہ دوم حضرت عمر جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تو وہ جنوبی سمت سے جبل مکبر کی طرف سے آئےتو انہوں نے اس جگہ مختصر پڑاؤ کیا تھا۔ انہوں نے اسے القیامہ گرجا گھر میدان کا نام دیا مگر بعد کے مورخین نے اسے میدان عمر بن خطاب قرار دیا۔

میدان عمر بن خطاب کو عثمانی خلیفہ عبدالحمید دوم نے سنہ 1898ء کو جرمن شہنشاہ ویلیم دوم اور ان کی اہلیہ اوگسٹا ویکٹوریا کے لیے کھول دیا تھا۔ جرمن شاہی جوڑے نے نیو باب الخلیل کے قریب ’امپیریل‘ ہوٹل میں قیام کیا۔

یاد رہے کہ جرمنی شہنشاہ نے باب الاصلی کے راستے ترکی پرچم تلے القدس داخل ہونے سے انکار کردیا تھا۔ یہ انکار بھی خلافت عثمانیہ کی کم زوری کی واضح علامت تھی۔

باب الخلیل کی دائیں جانب سے میدان عمر بن خطاب شروع ہوتا ہے۔ اس میں ایک تاریخی قلعہ جو شہر کی دیوار سے قریبا 700 سال قبل تعمیر کیا گیا۔ اس کے علاوہ دور ایوبی کی ایک خندق بھی اس میدان کا اہم مقام ہے۔

ابو شمسیہ کا کہنا ہے کہ باب الخلیل کے بائیں جانب بیت المقدس کے ایک پرانی خاندان ’الصافوطی‘ خاندان کا مرکز رہا ہے جہاں اس قبیلے کی متعدد قبریں بھی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ دو قبریں دو معماروں کی ہیں جنہیں باد شاہ سلیمان القانونی کے حکم پر پھانسی دے دی گئی تھی مگر تاریخ میں اس کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملتا۔ بعض مورخین کا کہنا ہے کہ دو قبریں بوسنیائی خاندان کے افراد کی بتائی جاتی ہیں۔

یہیں پر یونای بازار کا داخلی راستہ، یونانی اوقاف کا مرکز، امپریل ہوٹل اور الپتر ہوٹل کے راستے ہیں۔ یہ تمام مقامات انیسویں صدی کی یادگاریں ہیں۔

ان مقامات کے درمیان شاہراہ داؤد، آسٹرین پوسٹ آفس، برطانوی ڈاک مرکز اور المسیح چرچ جسے سنہ 1850ء میں تعمیر کیا گیا بھی اس کے تاریخی مقامات ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی