چهارشنبه 30/آوریل/2025

غزہ کے بارے صہیونی عقل کے اندھے کیا سوچتے ہیں؟

منگل 14-اگست-2018

صہیونی لیڈروں کو یہ بات تو اچھی طرح معلوم ہے کہ غزہ کی پٹی میں جاری بحران کا واحد ، پہلا اور آخری حل وہاں پر مسلط کی گئی پابندیوں کو ختم کرنا، غزہ کا محاصرہ اٹھانا دو ملین آبادی کی گردن پر رکھا پاؤں ہٹانا ہے۔ مگر اس حقیقت کے ادراک کے علی الرغم صہیونی ریاست کئی دوسرے آپشنز جن میں غزہ پر جنگ مسلط کرنا شامل ہے پر بار بارغور کرہی ہے۔

حالیہ عرصے کے دوران غزہ کے علاقے پر اسرائیلی حکومت نے نئی اقتصادی پابندیاں عاید کیں جس کے بعد وہاں پرانسانی بحران میں مزید اضافہ ہوا۔ کشیدگی بڑھ گئی اور نوبت جنگ کے قریب آ پہنچی ہے۔ موجودہ کشیدہ صورت حال کے پیش نظر صہیونی  عسکری اور سیاسی لیڈر میراتھن اجلاس منعقد کررہے ہیں مگران عقل کے اندھوں کو یہ اندازہ نہیں ہو رہا کہ وہ جس مسئلے کا حل کبھی جنگ اور کبھی فوج کشی میں تلاش کرتے ہیں اس کا حل  مظلوم فلسطینیوں کو ان کےحقوق دلانے میں مضمر ہے۔

ان کے خشک اجلاس نہ تو غزہ کے عوام کے لیے فایدہ مند ہوسکتے ہیں اور نہ ہی صہیونی ریاست کی پریشانی ان سے دور ہو سکتی ہے۔

سیکیورٹی کے مفادات

حال ہی میں اسرائیل کے انسٹیٹیوٹ آف نیشنل پیس سیکیورٹی کے زیراہتمام ایک سیمینار منعقد ہوا جس میں باریک بینی کے ساتھ اس امر کا جائزہ لیا گیا کہ آیا غزہ کی پٹی کے بحران کو کیسے حل کیا جاسکتا ہے۔

اس موقع پر سابق وزیر موشے یعلون نے کہا کہ غزہ کے بحران کے حل کے لیے کسی مذاکرات کی ضرورت نہیں۔ تاہم اسرائیل کو اپنے سیکیورٹی کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کے بحران کو انسانی بنیادوں پر دیکھا جانا چاہیے۔ غزہ کے مسئلے پر بات چیت اس انداز میں کی جائے تاکہ اسرائیل کے سلامتی کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے۔ غزہ کے عوام کو احترام اور فلاحی حقوق کے حصول کا حق حاصل ہے، مگر ہمیں خود کو دھوکہ نہیں دینا چاہیے۔

رکن کنیسٹ اور تجزیہ نگار حاییم یلین نے کہا کہ ہمیں اپنی رقم وہاں وہاں خرچ کرنا چاہیے جہاں سے ہم پر کوئی فائرنگ نہ کرے۔ ہمیں آبادی اور دہشت گردی میں فرق کرنا ہے۔ ہمیں براہ راست غزہ کی پٹی کے مسائل کے حل کے لیے براہ راست کوشش کرنی چاہیے۔غزہ کی پٹی کی مدد کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی سلامتی کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

رکن کنیسٹ میراو میخائلی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی پہلی ترجیح ملک کی سلامتی ہے۔ اگر غزہ کی پٹی میں امن اسرائیل کی سلامتی کی قیمت پر نہیں ہوتا تو ہمیں غزہ کی مدد کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

پس چلمن کیا ہو رہا ہے

اسرائیل کی سابق سیکیورٹی یونٹ ’8200‘ کے سابق کمانڈر رونیٹ مرزان کا کہنا ہے کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] بدل چکی ہے، اب ہمیں بھی حماس کے حوالے سے خود کو بدلنا ہوگا۔

تجزیہ نگار اوڈی ڈیکل کا کہنا ہے کہ ہمیں غزہ کی پٹی میں محمود عباس کی واپسی کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ حالات کو محمود عباس ہی تبدیل کرسکتے ہیں۔ حماس نہیں کرسکتی۔ تاہم اگر محمود عباس بھی تبدیلی میں ناکام رہتے ہیں توغزہ کی صورت حال تبدیل نہیں ہوسکتی۔

اسرائیلی ریڈیو کے عرب امور کے نامہ نگار گیل بیرگر کا کہنا ہے کہ حماس نے متعدد بار غزہ میں جنگ بندی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

فوجی تجزیہ نگار ‘لیل شاحر‘ کا خیال ہے کہ گذشتہ جمعرات کو کابینہ کے اجلاس میں غزہ کی پٹی کےحوالے سے کافی گرما گرم بحث کی گئی اور غزہ کے مختلف سینیاریوز کوزیربحث لایا گیا۔ اس موقع پر اسرائیلی وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین نے بری فوج غزہ میں داخل کرنے اور غزہ کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کی تجویز دی جسے مسترد کردیا گیا۔

عبرانی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی کے حوالے سے اسرائیلی کابینہ کا اجلاس مسلسل 12گھنٹے جاری رہا مگر اجلاس میں ہونے والی بات چیت کو خفیہ رکھا گیا تاکہ عوام کو اس کی بھنک نہ پڑنے پائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ تاثر نہ جائے کہ حکومت نے غزہ میں حماس کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی