جمعه 15/نوامبر/2024

صہیونی نسل پرستی کے ’سیاہ باب‘!

بدھ 25-جولائی-2018

صہیونی تحریک کی بنیاد پر نظر ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پوری تحریک اور اس کا فکر و فلسفہ انتہا پسندی، نسل پرستی اور تشدد پر مبنی ہے۔ دہشت گردی، شدت پسندی، دوسری اقوام پر غلبہ اس تحریک اور اس کے حامیوں کے دل ودماغ میں رچا بسا ہے۔ یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اللہ کی چیدہ قوم ہیں۔ سب سے زیادہ پاک باز، قدیم، ذہین اور بنی نوع انسان میں سب سے بلند مرتبہ، دریائے فرات سے نیل کے ساحل تک جو پورا فلسطین ہے وہ دراصل ارض اسرائیل ہے اور یہ ارض اسرائیل دنیا بھر کے یہودیوں کا قومی وطن ہے۔

صہیونی نسل پرستی اور یہودی انتہا پسندی دنیا کے کسی ایک خطے کے اندر محدود نہیں۔ یورپ سے یہ پھوٹی اور جرمنی میں اس نے خوب فروغ گیا۔ صہیونی تحریک کے بیشتر بانی جرمن ہیں۔ جرمن فلسفی فریڈرک نتشے کو انہوں نے اپنے فکرو فلسفے کی بنیاد بنایا۔ وہیں سے صہیونی تحریک کو نسل پرستی اور امتیازی سلوک کا رنگ دیا گیا۔ یہودی قبضے، توسیع پسندی اور آباد کاری کا کینسر بھی وہیں سے پھوٹا اور اس کی آبیاری کے لیے یہودیوں نے سب سے بڑھ کر نمایاں کردار ادا کیا۔

صہیونیوں اور اسرائیل کے نسل پرستانہ قوانین کے تین بنیادی اصول ہیں۔ یہودی مذہب، صہیونیت اور لبرل مفاہیم، اور یہ سب تورات اور تلمود کی مذہبی تعلیمات کا نچوڑ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہے کہ عربوں اور غیریہودیوں کو وہ ان افکار سے دور سمجھتے ہیں۔

صہیونی فکری نسل پرستی

اگر ہم یہ کہیں کہ اسرائیل سیاسی، سماجی اور قانونی اعتبار سے نسل پرستی کے نمونوں پرعمل پیرا ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ یہودیوں کی مذہبی کتب میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ مثلا ان کی مذہبی کتب میں غیریہودیوں کو ’الغوییم‘ یعنی’اغیار‘ کہا جاتا ہے۔

اسی فکرو فلسفے کی بنیاد پر وہ یہودی قومیت کے فلسفے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہودی آباد کاری کی دعوت دی جاتی ہے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری کے منصوبے جاری ہیں اور ان منصوبوں کے باعث  فلسطینی قوم پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔

نسل پرستی کا جادو صہیونیوں کے ہاں سر چڑھ کر بولتا ہے۔ حتیٰ کہ خود یہودی اپنے مذہب کے لوگوں سے خطوں اور رنگوں کی بنیاد پر تفریق کرتے ہیں۔ مثلا مشرقی یہودی جنہیں اشکنزئی کہا جاتا ہے مغربی یہودیوں سے رتبے میں کم ہیں۔ اسی طرح افریقی اور ایتھوپیائی یہودی وغیرہ۔ گولڈا مائیر تسلیم کا یہ جملہ مشہور ہے کہ یہودیوں کی مغربی نسل بلند رتبے کی حامل ہے۔

نسل پرستی کے مظاہر

صہیونی ریاست کے نسل پرستی کے کئی مظاہر ہیں۔ فلسطین میں اس کی بے شمار زندہ مثالیں موجود ہیں۔

ذیل میں ان بعض نسل پرستانہ اقدامات کو بیان کیا جا رہا ہے۔

غاصبانہ قبضہ

پوری دنیا حتیٰ کہ اسرائیل کے کئی حلیف ممالک بھی فلسطین پر اس کے غاصبانہ قبضے کی مخالفت کرتے ہیں۔

سرقہ اراضی

یہودی کالونیاں

یہودی کالونیوں کو باہم مربوط کرنے کے لیے گوروں کے دور میں جنوبی افریقا کی طرز پر نسل پرستانہ بنیادوں پر قائم کی گئی سڑکیں۔

چیک پوسٹیں اور بندش

فلسطینیوں کی تذلیل کے لیے قدم قدم پر قائم کردہ فوجی چوکیاں نسل پرستی کا ایک واضح ثبوت

دیوار فاصل

سنہ 2004ء میں بین الاقوامی فوج داری عدالت نے دیوار فاصل کو عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

القدس پر قبضہ

مقبوضہ بیت المقدس پریہودیت کا رنگ چڑھانا، اس کا آبادیاتی اور اسٹیٹس تبدیل کرنا اور فلسطینی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنا۔

آبی وسائل پر قبضہ

فلسطین کے 83 فی صد آبی وسائل پر صہیونیوں کا قبضہ ہے۔ غرب اردن اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں آبی وسائل ہتھیانے کا سلسلہ روز کا معمول ہے۔

گرفتاریاں اور تشدد

فلسطینیوں کو بلا تفریق گرفتار کرکے عقوبت خانوں میں اذیتیں دینا اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنا۔

فلسطینیوں کے گھروں کی مسماری

بے گناہ فلسطینیوں حتی کہ کم سن بچوں کو ماورائے عدالت بے دردی سے شہید کرنا۔

فلسطین کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا

فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین

صہیونی ریاست کےقیام کے ساتھ ہی فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین سازی  شروع کردی گئی تھی۔ سنہ 1948ء سے 1953ء تک اسرائیل نے کئی نسل پرستانہ قوانین  منظور کیے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ نسل پرستانہ قانون سازی کے حوالے سے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی حکومت سب سے آگے ہے۔

شہریت کا قانون

28 جولائی 2008ء کو اسرائیلی کنیسٹ نے سٹی زن لاء منظور کیا۔ اس قانون کے تحت ہر اس شخص کی اسرائیلی شہریت منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی جو اسرائیل کی وفاداری کا عہد نہیں کرتا اور بد عہدی کے لیے کہا گیا کہ وہ شخص جو غزہ کی پٹی میں رہتا ہو یا نو عرب اور مسلمان ملکوں میں رہ رہا ہو وہ اسرائیل کا وفادار ہیں ہوسکتا۔

قانون نکبہ

اس قانون کے تحت سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں ایسی کسی کمپنی یا ادارے کو سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دی جائے گی جو اعلانیہ اسرائیل کو یہودی ریاست تسلیم نہیں کرتا۔ یا اس کی سرگرمیوں میں یہودی ریاست کی نفی کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں صہیونی ریاست کے وجود سے انکار کرنے والے اداروں کو سرمایہ کاری یا کسی دوسری خدمت کی اجازت نہیں دی جاتی۔

اسرائیلی شہریت کا قانون

اس قانون کے تحت اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے شخص کی شہریت سلب کرلی جائے گی اور اسے اسرائیل[مقبوضہ فلسطین] سے نکال باہر کیا جائے گا۔

اراضی ہتھیانے کا قانون

فلسطین میں قیام اسرائیل سے قبل صہیونی فلسطینی اراضی کے 5.5 فی صد کے مالک بھی نہیں تھے۔ اب صہیونی ریاست کی اجارہ داری اور نسل پرستانہ قوانین کے ذریعے 93 فی صد فلسطینی اراضی کو یہودیوں کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔

اذان پر پابندی کا قانون

اسرائیل کے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین میں مساجد میں اذان پر پابندی کا قانون بھی شامل ہے۔

اس کے علاوہ بھوک ہڑتالی قیدیوں کو جبری خوراک دینے کا قانون جسے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے قیدیوں پرغیرقانونی تشدد کا حربہ قرار دیا ہے۔

سنگ باری قانون

سنگ باری کرنے والے فلسطینی بچوں کے خلاف مقدمات چلانے کا قانون۔ اس قانون کے تحت سنگباری کرنے والے فلسطینیوں کو 10 سال قید کی سزا کی سفارش کی گئی۔

کم سن فلسطینیوں کے خلاف مقدمات

اس قانون کے تحت 14 سال کے فلسطینی بچے کا ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔

دہشت گردی کا قانون

اس قانون کے تحت عمرقید کے سزا یافتہ کسی بھی فلسطینی کو چالیس سال تک رہا نہیں کیا جائے گا۔

مختصر لنک:

کاپی