اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سیاسی شعبے کے سینیر رکن اور جماعت کے مرکزی رہ نما ڈاکٹر خلیل الحیہ نے کہا ہے کہ غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو مفت میں رہا نہیں کیا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ سنہ 2011ء کی طرز کی قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل ممکن ہے۔ 2011ء کی ڈیل میں اسرائیل کے ایک جنگی قیدی گیلاد شالیت کے بدلے میں ایک ہزار پچاس فلسطینی قیدیوں کو اسرائیلی جیلوں سے آزاد کرایا گیا تھا۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے عسکری ونگ عزالدین القسام بریگیڈ کے شہید رکن عبدالکریم رضوان کی نماز جنازہ اور جمعہ کے اجتماع سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوجی ھدار گولڈن اور شاؤل ارون کو جنگی قیدی بنائے چار سال ہوچکے ہیں۔ انہیں مفت میں رہا نہیں کیا جائے گا بلکہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں اس کی منہ مانگی قیمت وصول کریں گی۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ غزہ کی مشرقی سرحد سے فلسطینیوں کے کاغذی آتشی جہازوں اور گیسی غباروں نے صہیونی ریاست کے کھوکھلے پن کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے۔ صہیونی دشمن جو ہرطرح کے اسلحہ سے لیس ہے اور فلسطینی قوم کے خلاف طاقت کا اندھا دھند استعمال کررہا ہے کمزور اور ناتواں فلسطینیوں کے کاغذی جہازوں کے سامنے بے بس ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر مزید پابندیاں عاید کرکے حماس اور فلسطینی قوم کو بلیک میل کرنا چاہتا ہے مگر حماس کسی صورت میں اپنے اصولی موقف سے دست بردارنہیں ہوگی۔
ڈاکٹر الحیہ نے صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کے عزم وثبات کو سراہا اور کہا کہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے والے عرب ممالک فلسطینی قوم کے عزم سے سبق سیکھیں۔ ہم اپنی منزل کے حصول تک مسلح جدو جہد جاری رکھیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس قومی مفاہمت کے حوالے سے مصر کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کو قبول کرنے کو تیار ہے۔ ہم نے قومی مفاہمت اور قومی یکجہتی کے لیے ہمیشہ لچک دکھائی ہے۔ دوسرے فریقوں کو بھی ایسی ہی لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔