چهارشنبه 30/آوریل/2025

اسرائیلی نسل پرستانہ قانون فلسطینی وجود کو مٹانے کی کوشش ہے: ترکی

جمعہ 20-جولائی-2018

ترکی نے اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] میں منظور کردہ اس بل کی شدید مذمت کی ہے جس میں اسرائیل کو صرف یہودیوں کا قومی ملک قرار دیا گیا ہے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ترک ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی پارلیمنٹ میں یہودی ریاست سے متعلق قانون کی منظوری نے صہیونی ریاست کی اصلیت پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کردی۔

ایک بیان میں قالن نے کہا کہ ہم فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ اسرائیلی قانون کی منظوری سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صہیونی ریاست کے اس نسل پرستانہ اقدام کو قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ نام نہاد قانون فلسطینی قوم کو ان کے اپنے ملک کم کرنے اور فلسطینی وجود کو ختم کرنے کی راہ ہموار کررے گا۔

ترک ایوان صدر کے ترجمان نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کریں۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز اسرائیلی پارلیمان نے ریاست میں صرف یہود کو حقِ خود ارادیت دینے کے متنازع قانون کی منظوری دے دی ہے۔صہیونی ریاست کی عرب اقلیت نے اس قانون کو نسل پرستانہ قرار دے کر مستر د کر دیا ہے۔

وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کی دائیں بازو کی قوم پرست مخلوط حکومت کی جانب سے پارلیمان میں پیش کردہ ’’قومی ریاست کےقانون‘‘ کے حق میں 62 ارکان نے ووٹ دیا ہے جبکہ 55 ارکا ن نے اس کی مخالفت کی ہے اور دو بل پر رائے شماری کے وقت غیر حاضر رہے تھے۔120 ارکان پر مشتمل پارلیمان کے بعض عرب ارکان نے اس قانون کے خلاف سخت نعرے بازی کی اور اس پر ووٹنگ کے بعد کاغذات پھاڑ دیے۔

انتہا پسند وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے الکنیست میں ووٹنگ کے بعد کہا کہ ’’ صہیونیت اور اسرائیل کی تاریخ میں یہ ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے‘‘۔

اس متنازع قانون کا بل اسرائیل کے سترویں یوم تاسیس کے موقع پر پہلی مرتبہ پارلیمان میں پیش کیا گیا تھا اور اس پر دو ماہ سے زیادہ عرصے تک بحث ہوتی رہی ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ’’اسرائیل یہود کا تاریخی مادرِ وطن ہے اور انھیں اس میں قومی خود ارادیت کا خاص الخاص حق حاصل ہے‘‘۔

اس بل کے تحت عربی کی عبرانی کے ساتھ اسرائیل کی ایک سرکاری زبان کی حیثیت ختم کردی گئی ہے۔اس کا درجہ گھٹا کر اب اس کو ’’خصوصی حیثیت ‘‘ دے دے گئی ہے اور اس کے تحت یہ اسرائیلی اداروں میں مروج رہے گی۔  اسرائیل میں آباد عربوں کی آبادی اٹھارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔وہ کل 90 لاکھ آبادی کا 20 فی صد ہیں ۔وہ ایک طویل عرصے سے یہ شکایت کرتے چلے آرہے ہیں کہ ان سے اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہری کا سا سلوک کیا جارہا ہے۔

اس قانون کی بعض متنازع شقوں کو اسرائیلی صدر کی مخالفت کی بنا پر رائے شماری کے وقت حذف کردیا گیا ہے۔اس کے بجائے بہت ہی مبہم زبان میں وضع کیا گیا یہ قانون منظور کیا گیا ہے۔اس میں فلسطینی علاقوں میں یہود کی آبا د کاری کو ایک قومی فریضہ قرار دیا گیا ہے۔ قانون کے مطابق :’’ ریاست یہود آباد کاری کی ترقی کو ایک قومی قدر سمجھتی ہے اور وہ اس کے قیام کی حوصلہ افزائی اور فروغ کے لیے اقدامات کرے گی‘‘۔

مختصر لنک:

کاپی