پنج شنبه 01/می/2025

’جب فلسطین کا نقشہ دیکھ کر صدر اوباما کو بھی شدید صدمہ پہنچا‘

بدھ 18-جولائی-2018

امریکا کی ایک نیوز ویب سائیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سنہ 2015ء میں اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما کو فلسطین کا نقشہ دکھایا گیا تو وہ اسے دیکھ کر شدید صدمے سے دوچار ہوئے تھے مگر اس کے باوجود وہ فلسطینیوں کے لیے کچھ کرنے کے بجائے اسرائیل کی مالی مدد جاری رکھنے پر قائم رہے۔

امریکی ویب سائیٹ ’ڈیلی کوس‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سنہ 2015ء کو امریکی انتظامیہ نے صدر باراک اوباما کے سامنے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کا نقشہ پیش کیا۔ وہ اس نقشے کو دیکھ کر شدید صدمے سے دوچار ہوئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدر اوباما کو جو نقشہ دکھایا گیا اس میں غرب اردن میں فلسطینی شہروں کو جگہ جگہ یہودی کالونیوں، اسرائیلی فوج کے کیمپوں، چیک پوسٹوں کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے دکھایا گیا۔ فلسطین کا کوئی شہر ایک دوسرے سے ملا ہوا نہیں بلکہ سب کے درمیان جگہ جگہ یہودی کالونیاں، دیوار فاصل، چیک پوسٹیں یا اسرائیل کی دیگر تعمیرات دکھائی دیتی ہیں۔ یوں غرب اردن کا سارا علاقہ یہودی کالونیوں، فوجی کیمپوں اور چوکیوں میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ پورا مغربی کنارا ایک کینٹونمنٹ بن چکا ہے جہاں کوئی بھی حصہ دوسرے سے متصل نہیں۔

ویب سائیٹ نے اخبار ’نیوریارکر‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق صدر کے مشیر بن روڈس نے جب وہ نقشہ اوباما کو دکھایا تو وہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے۔

امریکی نیوز ویب سائیٹ نے بھی  امریکی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کی ہے اور لکھا ہے کہ امریکا کو جب معلوم ہوچکا ہے کہ اسرائیل فلسطینی ریاست کےقیام کی راہ میں عملا رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے تو اس کے باوجود  اسرائیل کی سالانہ اربوں ڈالر مدد کرتے ہیں۔ صدراوباما فلسطین کا تتر بترنقشہ دیکھ کر حیران وپریشان ضرور ہوئے مگر انہوں نے کبھی اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے امداد کم کرنے کی بات نہیں کی۔

مختصر لنک:

کاپی