اسرائیل کے عبرانی ٹی وی چینل ’7‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت فلسطینیوں کو اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع سے محروم کردیا گیا ہے۔
عبرانی ٹی ی کے مطابق کابینہ کی آئینی کمیٹی کی طرف سے مسودہ قانون کی منظوری کے بعد اسے کنیسٹ کی آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا ہے۔ اس مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی درخواستوں کی سماعت کا اختیار بیت المقدس میں قائم مرکزی عدالت کے دائرہ اختیار تک ہوگا۔ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف اپنے مقدمات سپریم کورٹ میں نہیں لے جاسکیں گے۔
عبرانی ٹی وی نے وضاحت کی ہے کہ نیا بل غرب اردن کے رہنے والے فلسطینیوں کو اسرائیلی سپریم کورٹ سے رجوع کرنے سے عملا روکنا ہے۔ فلسطینیوں کے تمام کیسز کو بیت المقدس کی ضلعی عدالت یا مرکزی عدالت تک محدود کردیا گیا ہے۔
یہ آئینی بل اسرائیلی خاتون وزیر قانون ایلیت شاکید نے پیش کیا ہے جس کا مقصد غرب اردن کے فلسطینی علاقوں پر صہیونی ریاست کی بالا دستی کو مزید وسعت دینا، مرکزی عدالت کے دائرہ اختیار کو بڑھانا اور سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم کرنا ہے۔
وزیر قانون شاکید کا کہنا ہے کہ ہم کنیسٹ کے ذریعے یہودا اور سامرا[غرب اردن] کے علاقوں میں رہنے والوں کے لیے یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ان کی اہمیت گرین لائن [1948ء] کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والوں سے کم نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ غرب اردن کے سالانہ 2000 کیسز کی سماعت کرتی اور ان پرفیصلے سناتی ہے۔ ان میں سے بیشتر مقدمات فلسطینیوں کی طرف سے مکانات مسماری کے خلاف یا یہودی آباد کاروں کے خلاف دائر کیے گئے ہوتے ہیں۔