ترکی کے لیے اسرائیل سے تعلقات کوئی معنی رکھیں یا نہ رکھیں مگر صہیونی ریاست ترک مملکت سے تعلقات کے قیام کو برقرار رکھنے پر مجبور ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گرما گرم تنقید اپنی جگہ مگر تل ابیب اور انقرہ کا دفاعی اور تجارتی تعاون 60 سال پر محیط ہے۔ اسرائیل سے تعلقات ترکی کی موجودہ حکمران جماعت ‘ اے کے’ پارٹی کی ایجاد کردہ بدعت نہیں۔ فلسطینیوں کے معاملے میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان اختلافات اپنی جگہ مگر دونوں ملکوں میں تعلقات ختم ہونے کے مقام تک نہیں پہنچے۔
حالیہ عرصے کے دوران ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں نے زیادہ حیران نہیں کیا کہ سعودی عرب اور اردن کوالقدس میں ترکی کی سرگرمیوں پر شکایت ہے اور دونوں ملکوں نے اسرائیل سے اس کی شکایت کی ہے۔
القدس میں ترکی کے بڑھتے اثرو نفوذ پر شکایت دونوں عرب ملکوں کی تنگ نظری کی عکاسی کرتی ہے۔
اردن مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی کے امور کا سرپرست ہے مگر اس کا القدس کے دفاع کے باب میں کوئی موثر کردار نہیں۔ دوسرے عرب ملکوں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے بھی اسرائیل کی کشتی میں سوار ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں بھی بیت المقدس کے امور میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی ہے۔ یوں اردن اور دوسرے عرب ممالک پر مقامی فلسطینیوں کا اعتبار بھی اٹھ گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ترکی کی سرگرمیوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ترکی کی فلاحی و ریلیف ایجنسی "تیکا” نے رواں سال ماہ صیام میں حرم قدسی اور القدس میں نمایاں فلاحی امور انجام دیئے۔ جس پر فلسطینی قوم کو بجا طورپر فخر ہے۔
ایسے میں ذہن فوری طورپر القدس میں ترک حکومت اور اس کے فلاحی اداروں کے کردار کی طرف جاتا ہے۔ بیت المقدس میں ترکی کی سرگرمیوں کے حوالے سے خبریں ذرائع ابلاغ میں آتی رہتی ہیں۔
بیت المقدس میں ترکی کے کردار کو درج ذیل نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
اول
ترکی کی حکومت کا فلسطینی قوم کے لیے قایدانہ کردار کسی سے مخفی نہیں۔ ترک حکومت مقامی، علاقائی اور عالمی سطح پر فلسطینی قوم کے حقوق کتے لیے جس جرات کے ساتھ مقدمہ لڑ رہی ہے وہ قابل تحسین ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور سفارت خانے کی القدس منتقلی پر عالم اسلام میں سب سے توانا آواز ترکی کی جانب سےاٹھائی گئی۔ فلسطین کے علاقے غزہ میں 14 مئی 2018ء کو قابض فوج نے فلسطینیوں کا قتل عام کیا تو اس پر ترک حکومت نے اپنے ہاں تعینات اسرائیلی سفیر کو نکال باہر کیا۔
دوم
سنہ 2015ء کو ترکی کے محکمہ مذہبی امور نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کے تحت مسجد اقصیٰ کی زیارت کو بھی حج وعمرے کی طرح اہم قرار دیا تاکہ ترکی کے شہری مکہ اور مدینہ کی طرف القدس کوبھی اپنے مذہبی سفر میں یاد رکھیں۔ اگرچہ اس حوالے سے مجتھدین میں دو الگ الگ آراء پائی جاتی ہیں کہ آیا اسرائیلی قبضے میں ترک شہریوں کو القدس میں آنا چاہیے یا نہیں۔
سوم
ترکی کی فضائی کمپنیوں نے القدس سفر کرنے کے خواہش مند مسافروں بالخصوص ترک شہریوں کو مزید سہولت اور ترغیب دینے کے لیے القدس کےلیے جہازوں کے کرائے کم کردیے۔
کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ان کے اس اقدام کا مقصد مسجد اقصیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کی کوششوں میں معاونت کرنا ہے۔
چہارم
ترکی کی فلاحی تنظیموں نے بیت المقدس میں فلاحی، رفاعی اور سماجی خدمات کے منصوبے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماہ صیام میں روزہ داروں کی افطاری، مسجد اقصیٰ میں اعتکاف کی سہولیات، ثقافتی اور مذہبی تقریبات کا انعقاد اور اس نوعیت کی دیگر سرگرمیوں میں ترکی کی فلاحی تنظیمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ ان میں ترکی کی’الواعد الشباب’ آرگنائزیشن اور دیگرصہیونی ریاست کی طرف سے تمام در مشکلات اور چیلنجز کے علی الرغم اپنی بھرپور خدمات فراہم کررہی ہیں۔
قصہ مختصر یہ کہ ترکی کی فلاحی اور ریلیف تنظیمیں بیت المقدس کے حقیقی اسلامی اور عرب تشخص کی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اسرائیل اور اس کے حواریوں کو ٹھنڈے پیٹوں گوارا نہیں۔ القدس میں فلاحی کاموں پر بھی دہشت گردی کی حمایت اور حماس کی مالی مدد کا الزام تھوپا جا رہا ہے۔ ترکی کی ایک خاتون سماجی کارکن ابرو اوزکان کی گرفتاری اور اس کے خلاف مضحکہ خیز مقدمہ بازی صہیونی ریاست کی پالیسیوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے القدس میں ترک اداروں کے کردار کو محدود کرنے اور ترکی سیاحوں کو ہراساں کرنے کی پالیسی کے باوجود تل ابیب اور انقرہ کے درمیان تعلقات کے مزید بگڑنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
ترکی کےذرائع ابلاغ اور حکومتی وسیاسی حلقے یہ تسلم کرتے ہیں کہ جب تک ترکی میں طیب ایردوآن اور ان کی جماعت کی حکومت قائم ہے ترکی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں اتار وچڑھائو آتا رہے گا۔ القدس میں ترکی کی فلاحی سرگرمیاں بھی جاری رہیں گی۔