فلسطین کے ایک سرکردہ سماجی کارکن اور کلب برائے اسیران کے چیئرمین قدورہ فارس نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینی قیدیوں اور شہداء کے اہل خانہ کو ملنے والی امداد بند کرانے کے قانون کی منظوری کو اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں کے مالی حقوق پرڈاکہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اسیران کی کفالت کی مد دی جانے والی رقوم کی آڑ میں فلسطینی ٹیکسوں کی رقوم میں کٹوتی ناقابل معافی جرم ہے۔ عالمی برادری کو صہیونی ریاست کے اس اقدام کا سختی سے نوٹ لینا چاہیے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ایک بیان میں قدرہ فارس نے کہا کہ صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینی قوم کو دی جانے والی ٹیکسوں کی رقوم روکنا فلسطینیوں کے مالی حقوق پرڈاکہ زنی اور قذاقی ہے جس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ کنیسٹ ایک آئینی بل پر تیسری رائے شماری کی ہے گئی۔ رائے شماری کے دوران بل کے حق میں 87 اور مخالفت میں 15 ووٹ ڈالے گئے۔ بل میں شامل اس شق کو ختم کردیا گیا جس میں فلسطینی ٹیکسوں کی رقوم میں کمی بیشی کا اختیار حکومت کو دیا گیا تھا۔
قانون کی منظوری کےبعد اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے ارکان کو مبارک باد پیش کی۔ اس قانون کی منظوری کے بعد فلسطینی اتھارٹی کو ٹیکسوں کی شکل میں دی جانے والی ایک بڑی رقم کاٹ لی جائے گی کیونکہ صہیونی حکام کا کہناہے کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے ملنے والی رقم کا ایک بڑا حصہ اسرائیل پرحملے کرنے والے فلسطینیوں کے اہل خانہ کی کفالت پر صرف کرتی ہے۔
مسودہ قانون میں کہا گیا ہے کہ وزیرخزانہ کو فلسطینی اتھارٹی کو ادا کی جانے والی ٹیکسوں کی رقم میں سے اتنی رقم منہا کرنے کا اختیار ہوگا جتنی فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کی کفالت کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے ادا کی جاتی ہے۔
مسودہ قانون میں یہ وضاحت شامل ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے کل بجٹ کا سات فی صد جس کی مالیت 30 کروڑ ڈالرکے برابر ہے فلسطینی شہداء اور اسیران کے اہل خانہ کی کفالت پر خرچ کرتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی یہ رقم یورپی یونین، امریکا اور دوسرے ملکوں سے حاصل ہونے والی امداد سے استعمال کرتی ہے۔
قبل ازیں صہیونی وزراء نے مطالبہ کیا تھا کہ حکومت غزہ کی سرحد پر فلسطینیوں کے احتجاج کے دوران یہودیوں کی فصلوں کو ہونے والے نقصان کے ازالے کےلیے فلسطینی اتھارٹی کی ٹیکسوں کی رقم میں سے کٹوتی کرے۔