پنج شنبه 01/می/2025

کیا فلسطینی اتھارٹی’صدی کی ڈیل‘ اسکیم کوخفیہ طور پر قبول کر چکی؟

بدھ 4-جولائی-2018

فلسطینیوں اوراسرائیل کے درمیان عشروں پر محیط تنازع کے حل کے لیے آج تک کئی فارمولے پیش کیے گئے مگران میں سے بہت کم کسی اسکیم پر عمل کیا گیا۔ امریکا کی موجودہ اسرائیل نواز حکومت اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاں بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے۔ ذرائع ابلاغ میں اس اسکیم کو ’صدی کی سب سے بڑی ڈیل‘ کہا جاتا ہے۔

صدی کی ڈیل کے حوالے سے بہت کچھ منظرعام پر آچکا ہے مگر اب بھی اس کے بعض پہلو پردہ راز میں ہیں۔ البتہ مجموعی طورپر یہ فارمولہ قضیہ فلسطین کے تصفیے کی ایک نئی امریکی۔ صہیونی سازش ہے۔

فلسطین کا سرکاری موقف ’صدی کی ڈیل‘ کے خلاف ہے۔ صدر محمود عباس، فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح بہ ظاہر تو اس فارمولے کی کھل کرمخالفت کرتے ہیں مگران کے عملی اقدامات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی نہ صرف یہ کہ صدی کی ڈیل کو قبول کرچکی ہے بلکہ وہ اس کے نفاذ کے لیے بھی کوشاں ہے۔

فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح’صدی کی ڈیل‘ کے حوالے سے متذبذب اور کشمکش کا شکار ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح صدی کی ڈیل کے متوقع تباہ کن آثار و نتائج کے پیش نظرکوئی موثر حکمت عملی وضع کرنے میں بری طرح ناکام ہیں۔ دوسری طرف امریکا اور اسرائیل صدی کی ڈیل کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ القدس کو اسرائیل کا صدر مقام قرار دینا اور امریکی سفارت خانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی ’صدی کی ڈیل‘ کی سازش کا حصہ ہیں۔

آئینی اشکالات

فلسطینی تجزیہ نگار زاھر المششتری کا کہنا ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ کے حوالے سے فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری موقف اور عوامی موقف کے حوالے سے کئی اشکالات موجود ہیں۔ فلسطینی صدر عباس پر’صدی کی ڈیل‘ کو آگے بڑھانے کے لیے عرب ممالک کی حکومتوں کا سخت دباؤ بھی ہے۔ عرب ممالک اور امریکا فلسطینی اتھارٹی کے حوالے سے گاجر اور چھڑی کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ امریکی مندوبین جارڈ کوشنر اور جسین گرین بیلٹ حال ہی میں عرب ممالک کا ایک دورہ کر کے واپس لوٹے ہیں۔ ان کے دورے کا مقصد ’صدی کی ڈیل‘ کو آگے بڑھانا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اصل سوالات وہ ہیں جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جارڈ کوشنر نے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں اٹھائے۔

الششتری نے فلسطینی اتھارٹی کے سرکاری موقف کو پراسرار قرار دیا اور کہا کہ صدر عباس کا ذاتی موقف کافی حد تک پراسرار ہے۔ بہ ظاہر وہ صدی کی ڈیل کی مخالفت کرتے نظرآتے ہیں مگر عملا وہ اس کے برعکس پالیسی پرعمل پیراہیں۔ فلسطینی صدر اوررام اللہ اتھارٹی کو موجودہ بحران سے نکلنے کے لیے جرات، بہادری اور قومی تعاون کی اشد ضرورت ہے اور وہ قومی مفاہمت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی واقعی ’صدی کی ڈیل‘ کے خلاف ہے تو اسے غرب اردن میں شہریوں پر طاقت کے استعمال اور غزہ کے عوام پر انتقامی پابندیاں عاید نہیں کرنی چاہئیں۔ صدرعباس کے عملی اقدامات صدی کی ڈیل کو نافذ کرنے کی کوشش دکھائی دیتے ہیں۔

دو متضاد کردار

فلسطینی دانشور اور صحافی یاسی عزالدین نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تحریک فتح اور فلسطینی اتھارٹی صدی کی ڈیل کے حوالے سے دو الگ الگ کردار ادا کررہے ہیں۔ صدر عباس کا اعلانیہ موقف ’صدی کی ڈیل‘ کے خلاف ہے جب کہ ان کا اپنا عمل اس سازش کو آگے بڑھانے کی کوشش ہے۔

فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح غزہ کی پٹی پر معاشی پابندیوں میں ملوث ہیں اور ان پابندیوں کو مزید طول دینے کی پالیسی پرعمل پیراہیں۔ صدر عباس کی یہ پالیسی صدی کی ڈیل کو آگے بڑھانے کی کوششوں کا حصہ لگتی ے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’صدی کی ڈیل‘ پر فلسطینی اتھارٹی کا سرکاری موقف گمراہ کن ہے۔ یہ اوسلو سمجھوتے کی ایک نئی شکل ہے۔ ہم اس کے لیے تیار ہیں اور ساتھ ہی اسے مسترد بھی کرتے ہیں مگر عملا ہم اس سازش کو نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اوسلو معاہدے نے امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی راہ ہموار کی۔ مسجد ابراہیمی کو معبد بنا دیا۔ مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کا داخلہ مباح کردیا۔ یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کی راہ ہموار کی۔ آج امریکی اور صہیونی ایک نے اوسلو کی تیاری کررہے ہیں۔

مختصر لنک:

کاپی