سنہ 1948ء میں ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن، ملاک اور زمینوں سے محروم کردیا گیا۔ لاکھوں فلسطینی اندرون اور آس پاس کے ملکوں میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے جہاں وہ 70 سال سےانتہائی کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہ جن پناہ گزین کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں وہاں زندگی کی ادنٰی درجے کی سہولتیں بھی میسر نہیں۔ انہیں رہائش کے لیے جو شلٹرز فراہم کیے گئے ہیں وہ گرمی سے بچاتے اور نہ یخ بستہ سردے سے محفوظ رکھنےمیں مدد دیتے ہیں۔
ان تمام مسائل کے ساتھ ساتھ اردن کے دارالحکومت عمان میں قائم ’المحطہ‘ پناہ گزین کیمپ کے 80 ہزار فلسطینی پناہ گزینوں کو ایک نئی ھجرت کا سامنا ہے۔ یہ فلسطینی سنہ 70 برسوں سے وہاں رہے رہےہیں مگر جن لوگوں کی اراضی پر یہ کیمپ قائم ہے اس کے مالکان مسلسل اراضی واگزار کرانے تقاضا کررہے ہیں۔
ھجرت کا خطرہ
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے محطہ پناہ گزین کیمپ کے مکینوں نے بتایا کہ انہوں نے بڑی تگ ودو اور محنت کے بعد کیمپ میں اپنی مدد آپ کے تحت یا امدادی اداروں کے توسط سے چھوٹے چھوٹے فلیٹ تیار کیے ہیں مگر قسمت ایک بار پھران سے یہ شیلٹرز چھیننے جا رہی ہے۔
ایک فلسطینی خاتون پناہ گزین ام احمد نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم زمین کے مالک تو ہیں نہیں۔ ہم پر مالکان کا دباؤ ہے کہ ہم کیمپ خالی کردیں۔
ایک سوال کے جواب میں ام احمد نے کہا کہ ایک اور ھجرت کا خطرہ ہمارے سروں پر تلوار بن کر لٹک رہا ہے۔ معاملہ اردن کی اعلیٰ عدالت میں ہے۔ اگر عدالت ہمیں زمین خالی کرنے کا حکم دیتی ہے تو ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں اور نہ ہی ہمیں کسی قسم کا معاوضہ ملنے کا امکان ہے۔ اگر عدالت مالکان کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو زمین کے مالک ہماری جھونپڑیوں کو بھی مسمار کردیں گے۔
تفصیلی کہانی
کیمپ کے ایک فلسطینی پناہ گزین اب موید نے ’مرکزاطلاعات فلسطین‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ المحطہ پناہ گزین کیمپ اس وقت سے اردن میں قائم ہے جب فلسطینی ھجرت کرکے اردن پہنچے۔ اس کیمپ کو اردن میں فلسطینیوں کا قدیم ترین کیمپ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے کیس کا ایک کمزور پہلو یہ ہے کہ ہمارا کیمپ سرکاری سطح پر فلسطین کے ریکارڈ میں پناہ گزینوں میں رجسٹرڈ نہیں اور نہ ہی یہ کیمپ اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی’اونروا‘ کے دائرہ اختیار میں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ المحطہ پناہ گزین کیمپ کے فلسطینی مہاجرین کو ماضی میں بھی اس کیمپ سے ھجرت کا سامنا رہا ہے۔ اردنی حکومت نے علاقے میں سڑکوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے دوران کیمپ کے بعض مقامات سے فلسطینیوں کو نکال دیا تھا۔
ابو موید نے اردنی حکومت پر زور دیا کہ وہ مداخلت کرتےہوئے ہزاروں فلسطینیوں کو ایک نئی ھجرت سے بچائے۔ انہیں متبادل جگہ فراہم کی جائے یا اسی کیمپ کو مستقل درجہ دیا جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اردن کے سابق فرمانروا شاہ طلال بن عبداللہ نے اپنے دور میں تاکید کی تھی کہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اس کیمپ سے نہ نکالا جائے۔ یہ بات اردن کے شاہی دیوان کے ریکارڈ میں بھی موجود ہے۔ اس لیے ہم اردنی حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ محطہ پناہ گزین کیمپ کے حوالے سے مرحوم شاہ طلال بن عبداللہ کے فیصلے پرعمل درآمد کو یقینی بنائے۔