اسرائیلی حکومت کے سینیر حکام نے کہا ہے کہ حکومت اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے جلد ازجلد معاہدے کے لیے تیار ہے۔
اسرائیلی حکام نے عبرانی ٹی وی ’14‘ کو بتایا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کی رہائی کی کوششیں عالمی ثالثوں کے ذریعے جاری ہیں۔ حماس کو یہ پیغام پہنچایاگیا ہے کہ وہ ’گیلاد شالیت‘ کی رہائی کی طرز پر طے پائے معاہدے کی طرح نئے معاہدے کے لیے کوئی پیشگی شرط پیش نہ کرے۔
صہیونی ریاست کی طرف سے حماس کے لیے بھجوائے گئے پیغام میں مزید کہا گیا ہے کہ حماس ان فلسطینیوں کواپنی فہرست میں شامل نہ کرے جو یہودی فوجیوں یا آباد کاروں کے قتل میں ملوث ہیں۔ صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کی نئی ڈیل ماضی کے معاہدوں سے مشابہ نہیں ہوگی۔
اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ تیسرے فریق کے ذریعے حماس کو یہ پیغام پہنچایا گیا ہے کہ جب تک اسرائیلی فوجی رہا نہیں ہوجاتے اس وقت تک غزہ میں انسانی بحران کے حل میں کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہوگی۔
ادھر حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے ایک ماہ پیشتر غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے چار اسرائیلیوں کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔ ان کے نام شاؤل ارون، ھدار گولڈن، آباراھام منگسٹو اور ھاشم بدوی السید بتائے جاتے ہیں تاہم ان کے بارے میں مفت میں کسی قسم کی تفصیلات نہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔
حماس نے شرط عاید کی ہے کہ اسرائیل قیدیوں کےتبادلے کے کسی نئے معاہدے سے قبل سنہ2011ء میں طے پائے’وفاء احرار‘ معاہدے کے تحت رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار کئے گئے فلسطینیوں کورہا کرے۔ اسرائیلی فوج نے سنہ 2011ء میں گیلاد شالیت کے بدلے میں رہا ہونے والے 1050 فلسطینیوں میں سے 50 سے زاید کو دوبارہ گرفتار کرنے کے ساتھ ان کی سابقہ سزائیں بھی بحال کردی ہیں۔