عالمی سطح پر اسرائیل کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بائیکاٹ کے لیے سرگرم مہم ’BDS‘ کی سرگرمیوں سے خائف ہونے کےبعد صہیونی ریاست نے انتقامی اقدامات میں اضافہ کردیا ہے۔
اسرائیل کے ایک موقر عبرانی اخبار ’مکور ریشون‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے بائیکاٹ مہم سے وابستہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے کارکنان پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے اور ان کارکنوں کے اسرائیل میں داخلے کو روکا جا رہا ہے۔
اسرائیلی وزارت داخلہ نے ایک نیا آرڈر جاری کیا ہے جس کے تحت بائیکاٹ تحریک میں شامل عالمی کارکنوں کی تصاویر کے ساتھ تمام تفصیلات حاصل کی گئی ہیں۔ ان تفصیلات کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے بعد وزارت داخلہ کے آن لائن ریکارڈ میں رکھا گیا ہے تاکہ بائیکاٹ مہم میں پیش پیش کسی کارکن کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکا جاسکے۔
تاہم صہیونی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل تمام افراد کی فہرست مرتب کرنے میں دشواری کا سامنا ہے، تاہم اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا سے مدد لی جا رہی ہے۔ ایسے افراد جو سوشل میڈیا پر اسرائیل کے بائیکاٹ کی حمایت کررہے ہیں ان کے اسرائیل میں داخلے پر بھی پابندی عاید کی جائے گی۔
اسرائیل کی وزارت برائے اسٹریٹجیک پلاننگ نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور عالمی سطح پر صہیونی ریاست کی بدنامی یا اس کے بائیکاٹ میں پیش پیش رہنے والوں کو اسرائیل میں داخل ہونے سے روکنا ہمارا حق ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب چند ہی روز قبل اسرائیلی اسٹریٹیجیک پلاننگ نے صہیونی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے 20 بین الاقوامی اداروں کو بلیک لسٹ کردیا تھا۔
عبرانی اخبار نے ’ہیومن رائٹس واچ‘ کے اسرائیل میں مندوب عمر شاکرکو بھی بائیکاٹ مہم کا رکن قرار دیتے ہوئے ایچ آر ڈبلیو پر کڑی تنقید کی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’عمر شاکر‘ اسرائیل کے عالمی سطح پر بائیکاٹ کے لیے جاری مہم کا سرگرم رکن ہے۔