چهارشنبه 30/آوریل/2025

سعودیہ اور ہمنواؤں کے اسرائیل سے تعلقات،محرکات، اثرات اور نتائج!

ہفتہ 9-جون-2018

فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت اور صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے سرگرم تنظیموں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات کےقیام کے ڈرامے کی شدید مذمت کرتے ہوئے صہیونی ریاست سے تال میل بڑھانے کو مستردکردیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ’فلسطینی مرکز برائے مزاحمت تعلقات اسرائیل‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں تینوں خلیجی ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ صہیونی ریاست کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی سیریز کا سلسلہ بند کریں اور عرب ممالک کے باضابطہ فیصلوں کی پابندی کرتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لیے مذاکرات، جمہوریت، آزادی، سماجی عدل وانصاف اور مساوات کےاصولوں پرعمل درآمد کریں۔

مرکزکی طرف سے جاری کردہ رپورت میں ان تینوں خلیجی ملکوں کی طرف سے صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کے اسباب اور محرکات بھی بیان کیے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب، امارات اور بحرین اپنے ہاں سیاسی، اقتصادی اور ترقیاتی شعبوں میں ہونے والے خسارے کو اسرائیل سے دوستی کے ذریعے پورا کرنا چاہتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تینوں ممالک کو اسرائیل سے دوستی کے قیام سے کوئی فایدہ نہیں ہوگا کیونکہ صہیونی این تینوں کو بلیک میل کرکے اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کریں گے۔ اس سے یہ ممالک اندرونی سطح پر اور بھی کمزور ہوں گے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی اسرائیل دوستی کے نتیجے میں صہیونی ریاست کے بارے میں عرب دنیا کے اجتماعی موقف کو دھچکا لگے اور اس کا سب سے زیادہ نقصان فلسطینی قوم کو اٹھانا پڑے گا اور عرب اقوام کو سوائے شرمندگی اور کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

تعلقات میں پیش رفت کے اسباب

اسرائیل اور تین خلیجی ریاستوں کے درمیان قربت اور تعلقات میں پیش رفت کے اسباب درج ذیل ہیں۔

1۔۔۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور بحرین کی برسراقتدار قیادت صہیونی ریاست کے ساتھ تعلقات کےقیام کی پرجوش حامی ہے۔ تینوں ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی راہ ہموار کرنے کے لیے تجارتی، سیاحتی اور دیگر شعبوں میں غیراعلانیہ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔

2۔۔۔ تینوں خلیجی ممالک اپنے اندر عرب بہار کی سلگتی آگ سے موجودہ سیاسی نظاموں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔ ان ممالک کے موجودہ حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی بقاء کے لیے عالمی بالخصوص امریکا اور یورپی ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس لیے یہ ممالک امریکا کی گود میں بیٹھے ہیں اور امریکیوں کی آشیر باد کےحصول کے لیے ان حکومتوں کو اسرائیل کے ساتھ بھی قربت بڑھانا پڑ رہی ہے۔

3۔۔۔۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خطے کی پالیسی بالخصوص اسرائیل سے امریکی تعلقات بھی عرب ممالک کی اسرائیل نوازی کا موجب بن رہے ہیں۔ ان خلیجی ملکوں کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی راضی رکھنا ہے اور ٹرمپ کی رضامندی کے حصول کے لیے انہیں اسرائیل کے ساتھ قربت پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس طرح جو کام اسرائیل کرنا چاہتا ہے وہ امریکا کررہا ہے اور اسرائیل خطے میں اپنے اثرو نفوذ کی توسیع کے لیے امریکیوں کو استعمال کرتا ہے۔

تعلقات کے اہداف

خلیجی عرب ممالک کے اسرائیل سے تعلقات کے اہداف درج ذیل ہیں۔

سعودی عرب ، بحرین اور امارات کے حکومتی نظام کا تحفظ اور استحکام

نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات کا فروغ

اصلاح کے پردے میں اپنے عوام کےبنیادی حقوق کی پامالیوں کو سیاسی اور ابلاغی تحفظ کا حصول

قضیہ فلسطین اور ایران سمیت خطے کے سلگتے مسائل میں ان ممالک کے کلیدی کردار کو یقینی بنانا۔

تینوں عرب ممالک کے نظام حکومت کے تحفظ کے لیے ابلاغی محاذ پر مضبوط مہم جوئی جس کے ذریعے مغرب جو قائل کیا جاسکے تو وہ اسرائیل ہی کرسکتا ہے۔

صہیونی ریاست سے تعلقات کےخطرات

تینوں خلیجی ملکوں کے اسرائیل سے تعلقات کے قیام سے کئی طرح کے خطرات جنم لے سکتے ہیں۔ مثلا

1۔۔۔۔ خلیجی ملکوں سے دوستانہ تعلقات کے قیام کے نیتجے میں اسرائیل غیرمعمولی سیاسی، اقتصادی،سفارتی اور تجارتی فواید حاصل کرے گا۔ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی ریاست کے جرائم میں اضافہ ہوگا اور فلسطینیوں کودہشت گرد قرار دینے کی گردان میں عرب ممالک بھی شامل ہوجائیں گے۔ اس طرح فلسطینیوں کے خلاف مظالم کے تحفظ میں اسرائیل کو مدد ملے گی۔

2۔۔۔  سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کی قیادت فلسطینی قیادت پر اثر انداز ہوگی اور فلسطینیوں کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے’صدی کی ڈیل‘ کو قبول کرنے پر مجبور کرے گی۔

3۔۔۔ اس کا تیسرا اثر ان ممالک کے اندرونی سماجی دھاروں پر پڑے گا کیونکہ ان کی عوام کی اکثریت اسرائیل سے دوستانہ مراسم کے قیام کی حامی نہیں۔ اس طرح یہ ممالک ایک نئی شورش کا بھی شکار ہوسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان ملکوں میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں مزید اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔

4۔۔۔ خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے تعلقات کے قیام کے خطرات میں سب سے بڑا خطرہ قضیہ فلسطین کو لاحق ہوگا اور اس کےبعد اسرائیل کو فلسطینیوں کو ہرسطح پر نشانہ بنانے کا نیا سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔

مختصر لنک:

کاپی