فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے ایک فلسطینی پناہ گزین نے اسرائیلی فوج کی طرف سے پھینکے گئے آنسوگیس کے گولوں کو اپنے دست ہنر سے فن پاروں اور ایسی اشیاء میں تبدیل کرنے کا کام شروع کیا ہے جو روز مرہ زندگی میں کام آسکتی ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے مہاجر 40 سالہ احمد ابو عطایا سے ملاقات کی۔ ابو عطایا نے اسرائیلی فوج کی طرف سے پھینکے گئے گیس کے گولوں اور بموں سے مختلف فن پارے تیار کرنا شروع کر رکھے ہیں۔
ابو عطایا کے آباؤ اجداد مقبوضہ فلسطین کے بئر سبع شہر سے تعلق رکھتے ہیں مگر ابو عطایا یک پناہ گزین کی حیثیت سے غزہ کی پٹی میں ایک مہاجر کیمپ میں رہتے ہیں۔ وہ 30 مارچ 2018ء سےغزہ میں حق واپسی کے لیے جاری عظیم الشان تحریک میں پیش پیش ہیں۔
نہ صرف احمد ابو عطایا خود بلکہ ان کے بچے بھی اسرائیلی فوج کی طرف سے پھینکے گئے موت کے بموں کو جمع کر کے انہیں اپنے والد کے پاس لے آتے ہیں جو ان بموں کو مختلف کار آمد چیزوں میں تبدیل کرتے یا ان سے مختلف فن پارے تیار کرتے ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ابو عطایا نے کہا کہ ’میں اسرائیلی فوج کے پھینکے گئے آنسوگیس کے گولوں سے فن پارے اور اسلامی تسبیحات تیارکرتا ہوں۔ اس طرح اسرائیلی فوج کے موت کے اس سامان سے میں زیست کا سامان تیار کرتا ہوں۔
احمد ابو عطایا اپنےآبائی شہر بئر سبع جانے کے لیے مکمل طور پر پرامید ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صہیونی ہم پر موت مسلط کرتے ہیں، ہمارے لیے موت کی کھیتیاں اگاتے ہیں اور ہم ان کھیتیوں سے زندگی حاصل کرتے ہیں۔ موت کے یہ ان گنت بم عظیم الشان تحریک واپسی کے شہداء اور زخمیوں کی یادگاریں ہیں۔

30 مارچ کے بعد ابو عطایا کے متعدد اہم قریبی عزیز اسرائیلی فوج کی فائرنگ سےزخمی ہوچکے ہیں مگر وہ اس کے باوجود ان مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
اسرائیلی فوج فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر فائرنگ، دستی بموں اور آنسوگیس کے زہریلے بموں کا استعمال کرتی ہے۔ فلسطینیوں پر آنسوگیس کے گولے نہ صرف فوجی جیپوں سے داغے جاتے ہیں بلکہ اب صہیونی فوج نے ایک نیا حربہ بھی اختیار کیا ہے۔ فلسطینیوں کے مظاہروں کو منتشر کرنے کے ڈرونز کی مدد سے بڑی مقدار میں آنسوگیس کی شیلنگ کی جاتی ہے۔

اسرائیلی اخبار’اسرائیل ٹوڈے‘ کے مطابق فوج نے فلسطینی مظاہرین کو سرحد سے دور رکھنے اور انہیں اسرائیلی فوج کو خطرہ بننے سے بچانے کے لیے ڈرونز کی مدد سے آنسوگیس کی شیلنگ کی جاتی ہے۔ اخبار کے مطابق اسرائیلی فوج کی طرف سے ڈرونز کی مدد سے فلسطینی مظاہرین کو منتشر کرنے کا تجربہ کافی کارگر اور کامیاب رہا ہے کیونکہ اس طرح ایک ہی وقت میں بڑی مقدار میں آنسوگیس کے شیل داغے جاتے ہیں۔ جس کےنتیجے میں فلسطینی منتشر ہونے پرمجبور ہوجاتے ہیں۔ ان آنسوگیس کے شیلوں سے فلسطینی مظاہرین بے ہوش ہوجاتے یا ان کے سرمیں اتنا شدید درد ہوتا ہے کہ ان کے لیے چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔