ارض فلسطین کو بجا طورپر انبیاء کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس ارض پاک کو یہ نام بلا وجہ نہیں ملا بلکہ یہاں کی مٹی میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور بنی اسرائیل کے دسیوں عظیم المرتبت پیغمبر آسودہ خاک ہیں۔ انہی بزرگ ہستیوں کی نسبت سے یہ اسلام کے پرانوار مقدس مقامات سے بھی بھرپور ہے مگردرندہ صفت صہیونیوں کی وحشت وبربریت کا نشانہ جہاں فلسطینی قوم ہے وہیں یہ مقدس مقامات بھی ان کا خاص نشانہ ہیں۔
فلسطین کے ان گنت مقدس مقامات میں خطہ ارضی میں حرمین شریفین کے بعد فلسطین کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہاں مسلمانوں کا پہلا قبلہ وکعبہ موجود ہے۔ قبلہ اول کے خلاف سال ہا سال سے جاری یہودی و نصارایٰ کی سازشوں کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے مقدس ترین مقامات بھی خطرے میں ہیں۔ انہی میں دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل میں واقع تاریخی جامع مسجد ابراہیمی جسے ’حرم ابراہیمی‘ بھی کہا جاتا ہے فلسطین میں قبلہ اول کے بعد دوسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین میں یہودی اور صہیونی سرطان کے سرائیت کرنے کے بعد فطری طورپر وہاں کے دوسرے مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی بھی صہیونیوں کی مسلسل ریشہ دوانیوں کا شکار ہے۔
یہاں تک کہ اکیس اگست سنہ 1994ء بہ مطابق 15 رمضان المبارک 1414ھ کا وہ منحوس اور مکروہ وقت بھی آن پہنچا جب ایک انتہا پسند یہودی دہشت گرد گولڈ چائن نے مسجد میں گھس کرنماز میں کھڑے فرزندان توحید پراندھا دھند گولیاں برسائیں۔ یہودی درندے کی وحشیانہ فائرنگ سے 29 نمازی حالت سجدہ میں جام شہادت نوش کرگئے جب کہ 150 شدید زخمی ہوئے۔ یہودی دہشت گرد باروکھ گولڈ چائن نے نہتے نمازیوں پر500 گولیاں برسائی تھیں۔ تاریخ انسانی کی اس بدترین بربریت کے بعد صہیونیوں نے اگلی چال یہ چلی کہ مسجد ابراہیمی کو مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردیا جائے۔ یوں اس مسجد کے آدھے سے زاید حصے کو یہودیوں نے غصب کرلیا اور اسے یہودی انتہا پسندوں کی عبادت کے لیے مختص کرتے ہوئے اس میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عاید کردی۔
مسجد ابراہیمی میں عبادت پرقدغنیں
مسجد اقصیٰ میں درجنوں نمازیوں کے قتل عام کے 24 سال کے بعد آج بھی مسلمانوں کا یہ مقدس مقام صہیونی قدغنوں کی زد میں ہے۔ جگہ جگہ کیمرے، الیکٹرانک الات، بلند وبالا کنٹرول ٹاور، ان پر موجود ہمہ وقت مشین گنوں سے لیس صہیونی فوجی اس بات کی گواہی دیتے کہ مسجد ابراہیمی اب پوری طرح صہیونیوں کے نرغے میں ہے۔
مسجد میں نمازیوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے اسرائیل نے ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جسے ’شمغار‘ کمیشن کا نام دیا گیا۔ یہ کمیشن مسجد کی تقسیم کی ایک گہری صہیونی سازش تھی جس کا مقصد مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں باہم تقسیم کرنا تھا۔
صہیونی تسلط
فلسطین میں یہودیوں کے غاصبانہ تسلط کے قیام کے بعد مسجد ابراہیمی مسجد انتہا پسند صہیونیوں کی ریشہ دوانیوں کے نشانے پرہے۔ مسجد ابراہیمی کے ڈائریکٹر الحاج منذر رفیق ابو الفیلات کا کہنا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد مسجد ابراہیمی اور اس میں نماز کے لیے آنے والے فلسطینی بار ہا صہیونیوں کے حملوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔
سنہ 1970ء میں شدت پسند یہودی موشے ڈایان کے مسجد میں داخلے کے بعد اس کے نیچے غار کو بند کردیا گیا۔ سنہ 1976ء میں یہودیوں شرپسندوں نے مسجد میں گھس کر قرآن کریم کے کئی نسخے نذرآتش کیے جس کے بعد فلسطین سمیت پوری اسلامی دنیا میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی تھی اور کئی روز تک اسرائیل اور یہودیوں کی سازشوں کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔
سنہ 1994ء مسجد ابراہیمی کے حوالے سے نہایت المناک سال ہے کیونکہ اسی برس باروکھ گولڈچائن نامی ایک یہودی دہشت گرد نے مسجد میں نماز فجر کی ادائی میں مصروف نمازیوں کوگولیوں سے بھون ڈالا جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید اور دسیوں زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل صہیونی حکام نے سنہ 1987ء میں مسجد کے تمام داخلی اور خارجی دروازوں پر الیکٹرانک آلات، کیمرے اور جاسوسی کے دیگر آلات نصب کرکے اس پرقبضہ مضبوط کرنے کی سازش کی تھی۔
فلسطین میں یہودی آبادی کے امور کے تجزیہ نگار عبدالھادی خنتش کا کہنا ہے کہ چوبیس سال گذرنے کے بعد آج بھی ہم مسجد ابراہیمی میں نمازیوں کے قتل عام کے آثار دیکھتے ہیں۔
اب یہودی آباد کاروں اور اسرائیلی فوج نے عملا مسجد ابراہیمی کو اپنے غاصبانہ قبضے میں لے رکھا ہے۔ نہ صرف مسجد بلکہ اس سے متصل مدرسہ اسامہ المنقذ، سبزی منڈی، دفتر اوقاف، القفاصین بازار،السھلہ بازار، مسجدا لکیال، مسجد الاقطاب اور قدیم تکیہ جیسے مقامات پر غاصب یہودی قابض ہیں۔