امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں کویت کی جانب سےغزہ میں فلسطینی شہریوں کے تحفظ کے حوالے سے پیش ہونے والی اس قرارداد ویٹو کردی۔ کویت کی جانب سے پیش کی گئی قرا رداد کے مسودے میں غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ میں کویت کے مندوب منصور العتیبی نے فلسطینیوں کے تحفظ کے لیے قرارداد ویٹو کیے جانے پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست کے جرائم پر اس کا محاسبہ کرنے کے بجائے اسے احتساب اور پوچھ گچھ سے مستثنیٰ ملک کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کے تحفظ کی قرارداد کا منظور نہ ہونا کشیدگی میں مزید اضافہ کرےگا۔
اس موقع پر پیش کی گئی قرارداد پر برطانیہ نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا جب کہ فرانسیسی مندوب نے قرارداد کی حمایت کے لیے مزید مشاورت کی ضرورت پر زور دیا۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں کویت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے اقوام متحدہ میں تعینات امریکا کی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا،’’یہ سب یک طرفہ مواد ہے اور اخلاقی طور پر کھوکھلا ہے۔ اس کے ذریعے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن کے حصول کے اقدامات متاثر ہوں گے۔‘‘
امریکا نے اس حوالے سے اپنی قرارداد بھی پیش کر دی ہے جس میں غزہ کی بگڑتی صورتحال کا ذمہ دار حماس کو ٹہرایا گیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ’حماس اور اسلامی جہاد‘ اسرئیلی سرحدی علاقے کے ساتھ پرتشدد سرگرمیوں کو ختم کریں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ امریکا کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد پر ووٹنگ ہو گی یا نہیں۔
کویت کی جانب سے قرارداد کا متن دو ہفتے پہلے سکیورٹی کونسل میں پیش کیا گیا تھا۔ اس مسودے میں فلسطینیوں کے لیے ایک بین الاقوامی تحفظ مشن بنائے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سال مارچ کے اختتام سے اب تک اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 122 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکا یقیناً اس قرارداد کو ویٹو کر دے گا۔
گزشتہ برس دسمبر میں ہیلی نے اس قرارداد کو بھی ویٹو کر دیا تھا، جس میں صدر ٹرمپ کے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے فيصلے کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس قرارداد کی بقيہ ديگر ملکوں نے حمايت کی تھی۔ سکیورٹی کونسل کئی ہفتوں سے غزہ پٹی میں تشدد کے حوالے سے کوئی بھی ردعمل دینے میں ناکام رہی ہے حالاں کہ اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے ليے مندوب کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ بحران جنگ کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔