حال ہی میں محصورین غزہ نے اسرائیلی ریاست کی طرف سے مسلط کردہ کئی سالہ بحری ناکہ بندی توڑنے کے لیے ایک کشتی تیار کی اور اس کے ذریعے کھلے پانیوں تک رسائی کی کوشش کی گئی۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق ’سفینہ آزادی‘ کے عنوان سے یہ کشتی غزہ کے سمندر میں اتری اور اس پر درجنوں سماجی کارکن، مریض، زخمی اور طلباء سوار تھے۔
ان سواریوں میں ایک زخمی فلسطینی محمود جہاد عبدالکریم ابو عطایا بھی تھے جنہیں حق واپسی ریلیوں میں شرکت کے دوران اسرائیلی فوج نے گولیاں مارکر زخمی کردیا تھا۔
25 سالہ ابو عطایہ ٹانگ میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوگیا تھا جس کے بعد اسے علاج کے لیے غزہ سے باہر کسی دوسرے علاقے کے اسپتال لے جانے کی ضرورت تھی۔

مگر ابو عطایہ کا یہ خواب صہیونی فوج کی انتقامی پالیسی کے نتیجے میں شرمندہ تعبیر نہ کیا جاسکا۔اس کے باوجود ابو عطایہ سمیت غزہ کی پٹی کے ہر شہری کو یہ امید ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی کا عذاب بہت جلد اپنے اختتام کو پہنچے گا۔ اس امید کی ایک کرن وہ امدادی قافلے بھی ہیں جو صہیونی ریاست کی انتقامی کارروائیوں کے خطرے کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے عازم سر ہیں۔ ان میں ’سفینہ حریت 2‘عن قریب غزہ کی طرف روانہ ہوگا۔
غزہ کی پٹی سے سمندر میں روانہ ہونے والے ’سفینہ آزدی‘ پر سوار ابو عطایہ نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح صہیونی فوج کے بحری قذاقوں نے 12 میل کا فاصلہ طے کرنے کے بعد کشتی کو گھیرے میں لیا اور اس میں سوار تمام افراد کو حراست میں لے لیا۔
سفینہ آزادی میں شرکت
ابو عطایہ کا کہنا تھا کہ میں سفینہ آزادی پر سوار تھا کہ جب اسرائیلی فوج نے کشتی کو گھیرے میں لے لیا۔ صہیونی فوجیوں نے تمام سواروں کی فردا فردا تلاشی لی اور ان کی شناخت کی گئی۔ اس دوران جب وہ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ میں زخمی ہوں اور علاج کے لیے غزہ سے باہر جانا چاہتا ہوں۔
فلسطینی شہری نے بتایا کہ سفینہ آزادی پر 17 مریض اور زخمی سوار تھے جبکی متعدد طلباء بھی اس سفر میں شامل تھے۔

ہم نے ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں اور اس کے بعد فلسطینی شہریوں کے ترانوں اور دعاؤں میں وہاں سےروانہ ہوگئے۔ جب ہم کھلے سمندر میں پہنچے تو ہماری کشتی کو گھیرے میں لے لیا گیا۔ اسرائیلی فوج کی سات چھوٹی اور بڑی فوجی کشیتوں نے ہمیں گھیر لیا۔ ان پر اسرائیلی فوج کے کمانڈو سوار تھے اور ان کے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں تھیں۔
جب وہ ہماری کشتی میں داخل ہوئے تو ان کے ساتھ تفتیشی کتے بھی تھے۔ انہوں نے مریضوں اور زخمیوں پر کتے چھوڑ دیے۔ قریبا 70 اسرائیلی فوجیوں 17 نہتے مسافروں کو گھیرے میں لے لیا۔
تفتیش اور الزامات
ابو عطایہ نے بتایا کہ صہیونی فوجیوں نے انہیں چار گھنٹے تک مسلسل پوچھ تاچھ کی آڑ میں زدو کوب کیا۔ کشتی میں گھس کر قیمتی سامان کی توڑپھوڑ کی اور اس کے سواروں کو توہین آمیز سلوک کا نشانہ بنایا گی۔
صہیونی فوجیوں نے یرغمال بنائے تمام افراد پر الزام عائد کیا ہم سب غزہ میں اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے سپورٹر اور اس کے حامی ہیں۔ ہم نے بتایا کہ ہمارا حماس کے ساتھ کوئی تعلق ہیں۔ ہم میں سے بیشتر مریض اور بعض طلباء ہیں۔

فلسطینی نوجوان نے بتایا کہ اسرائیلی فوجی قذاقوں نے اس کا سارا سامان چھین لیا۔ جیب سے پیسے نکال لیےموبائل فون قبضے میں لینے کے بعداس کے کپڑے تک پھاڑ ڈالے اور اپنی طرف سے بوسیدہ اور پھٹے پرانے کپڑے پہننے کو دیے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر سفینہ حریت دوبارہ سفر پرنکلتا ہے تو اس کے سوار ہونے والوں میں وہ سب سے آگے ہوگا۔ اس نے بتایا کہ صہیونی فوجیوں نے تمام مسافروں کو لوٹا اور کسی کو بھی اس کی لوٹی گئی رقم یا دیگر اشیا واپس نہیں کی گئیں۔