منگل 29 مئی کو اسرائیلی فوج نے فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر درجنوں مقامات پرمیزائل حملے کیے جس کے جواب میں فلسطینی مزاحمت کاروں نے بھی اسرائیلی فوجی کیمپوں اور یہودی کالونیوں پر راکٹ باری کی۔ فلسطینیوں کی راکٹ باری کے نتیجے میں متعدد صہیونی زخمی ہوگئے جن میں فوجی بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری سے املاک کو نقصان پہنچا تاہم اس کے نتیجے میں کوئی قابل ذکر جانی نقصان نہیں ہوا۔ مصر کی طرف سے فوری مداخلت کی گئی اور فریقین جنگ بندی پر متفق ہوگئے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اسرائیل نے فوری طورپر مصر کی جنگ بندی کی تجویزکیوں قبول کی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی طرف سے پہلے ہی راکٹ ہلے میں صہیونی ریاست کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ غزہ کے مجاھدین قابض فوج اور اس کےانٹیلی جنس اداروں کے اندازوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور طاقت ور ہیں۔ فلسطینی مجاھدین نے 2014ء کی جنگ کی نسبت زیادہ سرعت اور کم وقت میں دشمن پراپنا رعب اور دھاک بٹھا دی جس کے نتیجے میں دشمن کو فوری جنگ بندی پر آمادہ ہونا پڑا۔
یہ پہلا موقع ہے جب قابض صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں درجنوں مقامات پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے حملے کیے مگر ان حملوں میں فلسطینی شہریوں میں خوف و ہراس پھیلا مگر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس نے صہیونی فوج کے فیصلہ سازوں کے فیصلوں پر کئی سوالات چھوڑے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہےکہ کیا فلسطینی مزاحمت کار اسرائیل پر اپنا رعب جمانے میں کامیاب ہوگئے ہیں اور کیا اب فلسطینی مزحمتی قوت ماضی کی نسبت زیادہ درست اور بہتر حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کے ترجمان سامی ابو زھری نے ایک بیان میں کہا کہ مزاحمتی قوتوں نے صہیونی دشمن کے خلاف اپنی ڈیٹرنس ثابت کردی ہے اور دشمن پر نیا جنگی توازن قائم کیا ہے۔
مزاحمتی کامیابی آزمائشی
فلسطینی تجزیہ نگار ایمن الرفاتی نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی قوتوں نے حقیقی معنوں میں صہیونی ریاست کی منظم جارحیت کے مقابلے میں متوازن انداز میں جوابی کارروائی میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اسرائیلی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل فلسطینی مزاحمتی قوتیں حق واپسی مارچ کے حوالے سے بھی اپنی اخلاقی برتری ثابت کرچکی ہیں تاہم یہ دونوں کامیابیاں آزمائشی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں الرفاتی کا کہنا تھا کہ منگل کے روز فلسطینی مزاحمتی قوتوں نے ماضی کی سرخ لکیروں سے آگے بڑھ کر نئی سرخ لکیر قائم کی ہے۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کی یہ حکمت عملی آنے والے دنوں کے لیے ایک امتحان بھی ہوسکتی ہے کہ آیا وہ اس پالیسی کو برقرار رکھ پائیں گے یا نہیں۔
الرفاتی کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی کے مزاحمت کاروں کی کامیابی کا ایک پہلو ان کی صفوں میں اتحد بھی ہے۔ ان مزاحمتی قوتوں نے اپنی صفوں میں یکجہتی کا مظاہرہ کرکے صہیونی دشمن کو یہ پیغام دیا ہے کہ غزہ میں کوئی ایک گروپ اسرائیل کے خلاف برسرپیکارنہیں بلکہ تمام عسکری تنظیمیں اپنے اپنے طورپر پوری طرح اور متحد ہر کو کام کررہی ہیں۔
تزویراتی پیغامات
فلسطینی تجزیہ نگار عماد ابو عواد نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز غزہ کی پٹی پرحملے اور جوابی کارروائی نے اسرائیل کو کئی تزویراتی پیغامات دیے ہیں۔ اس کارروائی کے غزہ کے مستقبل اور کسی ممکنہ جنگ پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
قبل ازیں انہوں نے اپنے ایک مضمون بہ عنوان’مزاحمت نے اپنا قد اونچا کرلیا‘ میں لکھا کہ فلسطینی مزاحمت کی طاقت کے سامنے صہیونی ریاست کی جارحانہ پالیسی کو شکست کا سامناکرنا پڑا ہے۔ اسرائیلی دشمن نے فلسطینی قوم کا محاصرہ کیا اور اس پر اجتماعی بھوک مسلط کرکے فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے بارے میں نفرت پھیلانے کی کوشش کی مگر اس کے باوجود فلسطینی قوم نے مزاحمت کا بھرپور ساتھ دیا ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ غزہ کی پٹی میں مزاحمتی قوت کو توڑنا اگرچہ ناممکن نہیں بلکہ صہیونی فوج کو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ دو روز قبل کی کارروائی سے اسرائیل کو یہ پیغام بھی ملا ہے کہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت نہ صرف زندہ اور موجود ہےبلکہ ماضی کی نسبت زیادہ طاقت ورہے۔