ماہ صیام آتے ہی فلسطین میں بسنے والے ہرمسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ مسجد اپنا زیادہ سے زیادہ وقت مسجد اقصیٰ میں عبادت وریاضت میں گزارے۔ مگر فلسطینیوں اس خواہش کی تکمیل میں صہیونی ریاست ایک بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہوتی ہے۔
ایک طرف فلسطینی روزہ داروں میں مسجد اقصیٰ کے دیدار کا شوق اور دوسری طرف اسرائیلی فوج اور پولیس کی جگہ جگہ کھڑی کی رکاوٹیں اور چوکیاں ہوتی ہیں تاہم اس کے باوجود صہیونی فلسطینی روزہ داروں کے اس شوق کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔
غرب اردن کے شمالی شہر نابلس سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی فلسطینی تیماء عامر کہتی ہیں گذشتہ 22 سال سے وہ مسجد ماہ صیام کے دوران ہرجمعہ کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرتی رہی ہیں مگر اس بار ماہ صیام کے دو جمعے گذر چکے ہیں۔ اس کےباوجود اسے مسجد اقصیٰ کی طرف جانے کی اجازت نہیں ملی۔ اس نے کم سے کم 10 بار اسرائیلی انتظامیہ سے مسجد اقصیٰ جانے کی اجازت چاہی مگر ہربار نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں اس کی درخواست رد کردی گئی۔
ملے جلے جذبات
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے تیماء عامر نے کہا کہ جب بار بار کی کوشش بھی رائے گاں رہی تو اسے ایسے لگا کہ اب اس کا مسجد اقصیٰ کے دیدار اور قبلہ اول میں عبادت کا خواب ہمیشہ کے لیے چکنا چور ہو گیا۔
اس کے باوجود میرے اندر ملے جلے جذبات پیدا ہوتے رہے۔ غم اور خوشی دونوں ایک ساتھ ۔ میں ٹیلی ویژن پر مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کے دھاووں کے مناظر کو دیکھتی وہ دل کڑھتا مگر کچھ عرصے سے میں ان مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔
ان کی 18 سالہ ہمشیرہ جو مسجد اقصیٰ میں اپنی بہن کے ساتھ عبادت کے لیے آئی کا کہنا ہے کہ میرا یہ پہلا موقع کہ میں قبلہ اول میں پہنچی ہوں۔ میں بہت خوش ہوں اور اپنی خوشی بیان نہیں کرسکتی مگر اس کےساتھ ساتھ جس تیزی کے ساتھ اسرائیل القدس اور مسجد اقصیٰ کو یہودیانے کی سازشیں کررہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہیں۔
اس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج اور پولیس کی طرف سے کھڑی کی رکاوٹوں کی وجہ سے بہت بڑی تعداد فلسطینیوں کی مسجد اقصیٰ تک پہنچنے سے محروم ہے۔ دونوں بہنوں نے القدس اور فلسطین بھر کے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ماہ صیام کے دوران قبلہ اول میں عبادت کے لیے رخت سفر باندھ لیں۔
نابلس کی ولاء محمد کا کہنا ہے کہ وہ بھی پہلی بار القدس آئی ہیں مگر جتنی خوبصورت القدس میں دیکھی دنیا کے کسی اور کونے میں ایسی نہیں دیکھی۔ میں فی الواقع القدس کی تاریخ، تہذیب اور اس کے قدرتی حسن کے ساتھ شہر کی روحانیت سے بہت زیادہ متاثر ہوئی ہوں۔
اگرچہ القدس اور نابلس شہر کے درمیان 69 کلو میٹر کی مسافت ہے اور دونوں شہروں میں تین سے چار گھنٹے کا سفر طے کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باوجود فلسطینیوں کا شوق دیدار ایسا ہے کہ وہ موسم کی شدت اور فاصلے کی طوالت کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ انہیں کسی چیز کی پریشانی ہوتی ہے تو وہ صہیونی فوج اور پولیس کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کی ہوتی ہے جس کے باعث انہیں ناکام واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
چیک پوسٹوں کا عذاب
نابلس شہر اور القدس کے درمیان پانچ بڑی اسرائیلی چوکیاں ہیں، جنہیں حوارة ،زعترة ،بيت إيل ،قلدنيا اورجبع کے ناموں سے جانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر چوکیاں عوفرة ،عين يبرود بھی ہیں جو فلسطینی شہریوں کی قبلہ اول تک رسائی میں رکاوٹ کے لیے بنائی گئی ہیں۔
قابض صہیونی حکام کی طرف سے مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس کے درمیان جگہ جگہ پر فوجی چوکیاں قائم کرکے روزہ داروں اور نمازیوں کو مسجد اقصیٰ تک رسائی سے روکنے کی سازشیں شروع کر رکھی ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق غرب اردن اور بیت المقدس کے درمیان قائم کردہ اسرائیلی فوجی چیک پوسٹیں فلسطینی نمازیوں اور روزہ داروں کے لیے ایک نئی آزمائش ہیں۔
مرکز اطلاعات فلسطین کے نامہ نگار کے مطابق ماہ صیام کے دوسرے جمعہ کو جب بیت لحم سے ہزاروں روزہ دار مسجد اقصیٰ میں نماز جمعہ کی ادائی کے لیے نکلے تو انہیں القدس سے متصل سرحد پر قائم چوکی پر روک لیا گیا۔ گھنٹوں روکےجانے کے بعد فلسطینیوں کو چھوڑا گیا۔ شناخت اور تلاشی کی آڑ میں چوکی پر فلسطینی مردو خواتین روزہ داروں کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اب روز کا معول ہے۔
نابلس سے القدس تک کا سفر منٹوں کے بجائے گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ فلسطینی شہری گھنٹوں چوکیوں پر قطاروں میں کھڑے تلاشی اور چیکنگ کے انتظار میں خوار ہوتے ہیں۔
چیک پوسٹوں پر ہونے والی تذلیل پر مقامی فلسطینی شہری سراپا احتجج ہیں۔ انہوں نے کئی بار صہیونی حکام سے ماہ تلاشی کا طریقہ کار تبدیل کرنے پر زور دیا مگرصہیونی فوجی اور پولیس اہلکار دانستہ طورپر فلسطینیوں کو ہراساں کرتے اور ان کے اعصاب کو آزمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک مقامی سماجی کارکن اور انسانی حقوق کمیٹی کے رابطہ کار ایڈووکیٹ فرید الاطرش نے اسرائیلی چیک پوسٹوں پر فلسطینیوں کی روز مرہ کی بنیاد پر جاری تذلیل کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائی کے لیے آنے والوں کو ان چیک پوسٹوں ہی پر نمازیں ادا کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چیک پوسٹوں پر فلسطینیوں کی تلاشی کا عمل سست ہونے کے ساتھ توہین آمیز بھی ہے اور ماہ صیام میں صہیونی ایک طے شدہ منصوبے کے تحت سخت گرمی میں روزہ داروں کو دھوپ میں کھڑا رکھتے ہیں۔